٣ الا انہ یکرہ لما فیہ من ترک التعظیم وقدورد النہی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم.
نہیں ہے ۔
تشریح : یہ حضرت امام شافعی کو جواب ہے کہ ، ہمارے نزدیک کعبہ اور قبلہ عمارت اور دیوار کا نام نہیں ہے ، بلکہ جس جگہ پر بیت اللہ ہے اس جگہ سے لیکر آسمان تک کی جو فضاء ہے اس سب کا نام کعبہ ہے ، چاہے دیوار ہو یا نہ ہو ، یہی وجہ ہے کہ کوئی آدمی ابو قبیس پہاڑ پر نماز پڑھے تو اس کی نماز ہو جا ئے گی ، حالانکہ اس کے سامنے کعبہ کی دیوار نہیں ہے کیونکہ دیوار تو پہاڑ سے بہت نیچے رہ گئی ، لیکن چونکہ کعبہ کی فضاء اسکے سامنے ہے جو قبلہ بن رہی ہے اس لئے نماز ہو جا ئے گی ۔باقی رہی کعبہ کی عمارت ، وہ تووہاں سے منتقل بھی ہو سکتی ہے ، اس لئے اس کا اصل اعتبار نہیں ہو نا چاہئے ، اصل اعتبار فضاء کا ہو نا چاہئے ۔
لغت: عرصة : میدان ۔ عنان السماء : آسمان کی بلندی ،فضائ۔ بناء : عمارت ، ۔ جبل ابی قبیس : یہ بیت اللہ کے سامنے ایک پہاڑ کا نام ہے ۔
ترجمہ: ٣ مگر یہ کہ بیت اللہ کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے ، اس لئے کہ اس میں اسکی تعظیم کا چھوڑنا ہے ، چنانچہ حضور ۖ سے اس کے بارے میں نھی وارد ہے ۔
تشریح : بیت اللہ کی چھت پر نماز جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے ، کیونکہ اس صورت میں بیت اللہ کی تعظیم و تکریم نہیں ہو گی اسلئے مکروہ ہے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ سات جگہ نماز پڑھنے سے منع فر ما یا ہے ، اس میں سے ایک جگہ بیت اللہ کی چھت بھی ہے صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے ۔ عن ابن عمر ان النبی ۖ نہی ان یصلی فی سبعة مواطن فی المزبلة والمجزرة والمقبرة وقارعة الطریق وفی الحمام ومعاطن الابل و فوق ظھر بیت اللہ۔ (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی کراہیة ما یصلی الیہ وفیہ ،کتاب الصلوة ص ٨١ نمبر ٣٤٦ ابن ماجہ شریف ، باب المواضع التی تکرة فیھا الصلوة ص ١٠٦،نمبر٧٤٦) اس حدیث میں ہے کہ بیت اللہ کی چھت پر نماز نہ پڑھے ، کیونکہ اسکی تعظیم کے خلاف ہے ۔