٢ وعند ابی یوسف ومحمد مالایلبث کالسیف ویعرف فی الجنایات ان شاء اﷲ تعالی (٧٤٨) ومن قتل فی حداوقصاص غسل وصلی علیہ)
ہے ، بلکہ قصاص ہے اس لئے ظلم کا اثر کم نہیں ہوا تو اس صورت میں اس شہید کو غسل نہیں دیا جا ئے گا ۔ یہ اور بات ہے کہ قاتل کا پتہ نہیں چل رہا ہے اس لئے دنیا میں قصاص کے طور پر قتل نہیں کیا جا سکا تو آخر ت میں اسکی سزا بھگتے گا ۔
وجہ : قصاص میںمقتول کو کوئی فائدہ نہیں ہے ، یہ تو شریعت کے قانون کی بناء پر قاتل قتل کیا جا تا ہے ، اس لئے اس پر ظلم کا اثر پورا رہا ۔
ترجمہ: ٢ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک ہر وہ چیز جس سے آدمی بچ نہیں سکتا ہو وہ حکم میں تلوار کی طرح ہے ۔ ان شاء اللہ کتاب الجنایات میں یہ بحث آئے گی ۔
تشریح : مالا یلبث : کا ترجمہ ہے جو ٹھہرتا ہی نہ ہو مر ہی جا تا ہو۔۔ کتاب الجنایات میں یہ بحث آئے گی کہ حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک صرف تلوار یا دھار دارلو ہے سے مارا ہو تب ہی قتل عمد ثابت ہو گا اور قاتل پر قصاص لازم ہو گا ، اور دھار دار کے علاوہ کسی بھی چیز مثلا لا ٹھی یا بھاری پتھر سے مارا ہو جس سے آدمی عام طور پر مر ہی جا تا ہو پھر بھی قتل عمد ثابت نہیں ہو گا اور قصاص لازم نہیں ہو گا ۔اور صاحبین کے نزدیک یہ ہے کہ تلوار اور دھاردار کے علاوہ کسی ایسی چیز سے مارا جس سے عام طور پر آدمی ٹھہرتا نہ ہو مر ہی جا تا ہو تو اس سے بھی قتل عمد ثابت ہو جا ئے گا ،اور قاتل پر قصاص لازم ہو گا ۔ تلوار ہو نا کوئی ضروری نہیں ۔
ترجمہ: ( ٧٤٨)جو حد یا قصاص میں قتل کیا گیا اس کو غسل دیا جائے گا اور اس پر نماز پڑھی جائے گی۔
وجہ: (١)غسل تو اس لئے دیا جائے گا کہ وہ شہید نہیں ہے بلکہ عام میت کی طرح ہے۔اور نماز اس لئے پڑھی جائے گی کہ یہ مؤمن ہے (٢) جہینہ کی عورت زنا کی حد میں رجم کی گئی تو آپۖ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی، حدیث یہ ہے ۔ عن عمران بن حصین أن امراة من جھینة أتت نبی اللہ ۖ و ھی حبلی من الزنی ....ثم أمر بھا فرجمت ، ثم صلی علیھا ، فقال لہ عمر : تصلی علیھا یا نبی اللہ ! و قد زنت ؟ قال : لقد تاب توبة لو قسمت بین سبعین من اھل المدینة لوسعتھم ، و ھل وجدت توبة أفضل من ان جادت نفسھا للہ تعالی ؟ ۔ ( مسلم شریف ، باب من اعترف علی نفسہ بالزنی ، ص ٧٥٣، نمبر ١٦٩٦ ٤٤٣٣ سنن للبیھقی ، باب الصلوة علی من قتلہ الحدود ج رابع ص٢٨،نمبر٦٨٣٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حد میں قتل ہونے پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی(٣)۔عن ابی برزة الاسلمی : أن رسول اللہ ۖ لم یصل علی ماعز بن مالک و لم ینہ عن الصلاة علیہ ۔ (ابو داؤد شریف، باب الصلوة علی من قتلہ الحدود ص ٤٦٥ نمبر ٣١٨٦) اس حدیث میں آپ ۖ نے نماز نہیں پڑھی لیکن پڑھنے سے منع بھی نہیں فر ما یا جس سے معلوم ہوا کہ پڑھنا ممنوع نہیں ہے ۔