١ لانہما لاحکام البناء والقبر موضع البلی ثم بالاٰجر اثرالنار فیکرہ تفاؤل (٧٣٥) ولاباس بالقصب ) ١ وفی الجامع الصغیر ویستحب اللبن والقصب لانہ صلی اﷲ علیہ وسلم جُعل علی قبرہ طُنّ من قصب
لکڑی مکروہ ہے کیونکہ وہ دیر پا رہتا ہے۔ البتہ بانس چونکہ دیرپا نہیں ہے اس لئے وہ جائزہے۔
وجہ: (١)حدیث میں ہے ۔عن جابر قال نھی رسول اللہ ۖ ان یجصص القبر وان یقعد علیہ وان یبنی علیہ (مسلم شریف ، کتاب الجنائز ، فصل فی النہی عن تجصیص القبور ص ٣١٢ نمبر ٩٧٠ ابو داؤد شریف ، باب فی البناء علی القبر ج ثانی ص ١٠٤ نمبر ٣٢٢٥)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبر پر پکی اینٹ اور تختہ نہ دیا جائے، اس پر کوئی بنیاد نہ بنائی جا ئے ، اور نہ چونے گچ سے مضبوط کی جا ئے (٢)۔ عن ابراہیم قال کانوا یستحبون اللبن و یکرھون الآجر ویستحبون القصب ویکرھون الخشب ۔ (مصنف ابن ابی شیبة ١٣٧، فی تجصیص القبر والآجر یجعل لہ ج ثالث ص ٢٧، نمبر ١١٧٦٩) اس اثر سے بھی مسئلہ کی تائید ہوتی ہے۔
لغت: الآجر : پکی اینٹ، خشب : لکڑی، القصب : بانس۔البلی : بوسیدہ ہو نا ، گلنا۔ تفاول : بد فالی لینا ۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ پکی اینٹ اور لکڑی بنیاد کو مضبوط کر نے کے لئے ہے اور قبر گلنے کی جگہ ہے ۔ پھر پکی اینٹ میں آگ کا اثر ہے ، اس لئے بدفالی کے طور پر مکروہ ہے ۔
تشریح : پکی اینٹ اور لکڑی کے مکروہ ہو نے کی دلیل عقلی ہے ۔ کہ لکڑی اور پکی اینٹ بنیاد کی مضبوطی کے لئے ہے اور قبر مضبوطی کی جگہ نہیں ہے بلکہ وہ گلنے اور سڑنے کی جگہ ہے اسلئے مضبوط لکڑی اور پکی اینٹ نہیں دینی چاہئے ، پھر دوسری بات یہ ہے کہ پکی اینٹ آگ سے پکی ہے اسلئے اس میں آگ کا اثر ہے اس لئے اس میں بد شگونی ہے کہ صاحب قبر کے ساتھ عذاب والی چیز رکھی جا ئے ، اس لئے یہ مکروہ ہے ۔ اس اثر میں اس کا ثبوت ہے ۔ عن سوید بن غفلة قال : اذا أنا مت فلا تؤذنوا بی أحدا و لا تقربونی جصا و لا آجرا و لا عودا و لا تصحبنا امرأة ۔ ۔ (مصنف ابن ابی شیبة ١٣٧، فی تجصیص القبر والآجر یجعل لہ ج ثالث ص ٢٧، نمبر ١١٧٦٦) اس اثر میں ہے کہ لکڑی اور پکی اینٹ قبر کے قریب نہ کی جا ئے ۔
ترجمہ: (٧٣٥) اور بانس کے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
ترجمہ: ١ اور جامع صغیر میں ہے کہ کچی اینٹ اور بانس دینا مستحب ہے ، اس لئے کہ حضور ۖ کی قبر پر بانس کا گٹھا استعمال کیا ہے ۔
تشریح : بانس اتنا مضبوط نہیں ہو تا اس لئے قبر پر اس کو رکھنے میں کو ئی حرج نہیں ہے ۔ حدیث مرسل میں ہے کہ حضور ۖ کی قبر میں