(٦٧٠) ویقلبُ رداء ہ ) ١ لما روینا ٢ قال ہٰذا قول محمد اما عند ابی حنفیة فلا یقلّب رداء ہ لانہ دعاء فیعتبر بسائرالادعیة وما رواہ کان تفاؤل (٦٧١) ولا یقلب القوم اردیتہم ) ١ لانہ لم ینقل انہ امرہم بذلک (٦٧٢) ولا یحضراہل الذمة الاستسقائ)
عن عمہ قال خرج النبی ۖ یستسقی فتوجہ الی القبلة یدعو وحول رداء ہ ثم صلی رکعتین یجھر فیھما بالقراء ة ۔ (بخاری شریف ، باب الجھر بالقراء ة فی الاستسقاء ص ١٣٩ نمبر ١٠٢٤ مسلم شریف ، کتاب صلوة الاستقاء ص ٢٩٣ نمبر ٨٩٤ ٢٠٧١ ابو داؤد شریف ، ابواب صلوة الاستسقاء ص ١٧١ نمبر ١١٦١) اس حدیث میں ہے کہ قبلہ رخ ہو کر دعا کرے ۔۔ حول کا معنی ہے پلٹے ۔ ردائ: چادر
ترجمہ: (٦٧٠) اپنی چادر کو پلٹے ۔
ترجمہ : ١ اس حدیث کی بنا پر جو میں نے روایت کی ۔ ۔یہ روایت اوپر گزرگئی ۔
ترجمہ: ٢ فر ما یا کہ یہ امام محمد کا قول ہے ، بہر حال امام ابو حنیفہ کے نزدیک تو اپنی چادر کو نہ پلٹے اسلئے کہ یہ دعا ہے ،تو اور دعاؤں پر قیاس کیا جائے گا ، اور جو روایت کی ہے وہ نیک فال کے طور پر تھا ۔
تشریح : استسقاء میں چادر کا پلٹنا فر ماتے ہیں کہ یہ امام محمد کا قول ہے ۔ امام ابو حنیفہ کی رائے تو یہی ہے کہ چادر کو نہ پلٹے ۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ اور دوسری دعا میں چادر نہیں پلٹتے ہیں تو اس میں چادر پلٹنا ضروری نہیں ہے ،۔ اور اوپر جو رویت گزری جس میں ہے کہ حضورۖ نے چادر پلٹی تھی وہ نیک فالی کے طور پر کی تھی کوئی ضروری نہیں تھا ، اسلئے نیک فالی کے طور پر چادر پلٹے تو جائز ہے ، بلکہ مستحسن ہے ۔ ۔تفاؤلا : نیک فالی
ترجمہ: (٦٧١) اور قوم اپنی چادر کو نہ پلٹے ۔ ١ اس لئے کہ یہ منقول نہیں ہے کہ حضور ۖ نے لو گوں کو چادر پلٹنے کا حکم دیا ہو ۔
تشریح : امام تو اپنی چادر پلٹے لیکن قوم کو پلٹنے کی ضرورت نہیں ہے ، لیکن اگر انہوں نے بھی پلٹ لیا تو کوئی حرج نہیں ہے کیوں کہ حدیث میں اس کا ثبوت ہے کہ صحابہ نے اپنی چادریں پلٹیں ۔ حدیث یہ ہے ۔ کان عبد اللہ بن زید من أصحاب رسول اللہ ۖ قد شھد معہ احدا قال : قد رأیت رسول اللہ ۖ استسقی لنا أطال الدعاء و أکثر المسألة ، قال ثم تحول الی القبلة و حول ردائہ فقلبہ ظھرا لبطن و تحول الناس معہ ۔ ( مسند احمد ، مسند عبد اللہ بن زید بن عاصم ، ج رابع، ص ٦٣٠، نمبر ١٦٠٣٠) اس حدیث میں ہے کہ حضور ۖ کے ساتھ لو گوں نے بھی اپنی اپنی چادریں پلٹیں ۔
ترجمہ: (٦٧٢)استسقاء میں ذمی حاضر نہ ہوں۔