٢ ثم ہی کخطبة العید عند محمد۔٣وعند ابی یوسف خطبة واحدة (٦٦٨) ولا خطبة عند ابی حنیفة) ١ لانہا تبع للجماعة ولا جماعة عندہ (٦٦٩) ویستقبل القبلة بالدعاء ) ١ لما روی انہ صلی اﷲ علیہ وسلم استقبل القبلة وَحَوَّل رداء ہ
فجعل الأیمن علی الایسر و الأیسر علی الایمن ۔( ابن ماجة ، باب ما جاء فی صلاة الاستسقاء ، ص ١٨٠، نمبر ١٢٦٨دار قطنی ، کتاب الاستسقاء ج ثانی ص ٥٤ نمبر ١٧٨٦)) اس حدیث میں ہے کہ آپ ۖ نے خطبہ دیا ۔
ترجمہ: ٢ پھر امام محمد کے نزدیک عید کے خطبے کی طرح دو خطبے ہو نگے ۔
تشریح : امام محمد کے نزدیک جس طرح عید میں دو خطبے ہو تے ہیں اور دو نوں خطبوں کے در میان بیٹھتے ہیں اسی طرح یہاں بھی ایک خطبے کے بعد امام بیٹھیں گے ۔
وجہ : دو خطبہ کے لئے یہ حدیث ہے ۔ ارسلنی الی ابن عباس أسألہ عن صلاة رسول اللہ ۖ فی الاستسقاء ....فکم یخطب خطبکم ھذہ و لکن لم یزل فی الدعاء و التضرع و التکبیر ، ثم صلی رکعتین کما یصلی فی العید ۔ ( ابو داود شریف ، باب جماع ابواب صلاة الاستسقاء و تفریعھا ، ص ١٧٤، نمبر ١١٦٥) اس حدیث میں ہے کہ استسقاء کی نماز عید کی طرح پڑھی جائے گی اور عید میں دو خطبے ہیں اس لئے یہاں بھی دو خطبے ہوں ۔
ترجمہ: ٣ اور امام ابو یوسف کے یہاں ایک خطبہ ہے ۔
تشریح : حضرت امام ابو یوسف کے یہاں یہ ہے کہ استسقاء میں ایک خطبہ دے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ حدیث کے انداز سے معلوم ہو تا ہے آپ ۖ نے استسقاء میں ایک خطبہ دیا ہے ۔
ترجمہ: (٦٦٨) امام ابو حنیفہ کے نزدیک خطبہ نہیں ہے ١ اس لئے کہ وہ جماعت کے تابع ہے اورانکے نزدیک استسقاء کی نماز ہی نہیں ہے ۔
تشریح : امام ابو حنیفہ کے نزدیک استسقاء میں خطبہ نہیں ہے ، اور اسکی وجہ یہ ہے کہ خطبہ تو اس وقت دے گا جب کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی ہو ۔ اور اوپر گزر چکا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک استسقاء کی نماز ہی نہیں ہے، بلکہ اصل دعاء اورگڑگڑانا استسقاء ہے اسلئے خطبہ دینے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی ، اسلئے خطبہ بھی نہیں ہے ۔
ترجمہ: (٦٦٩) دعا کر تے وقت قبلہ کا رخ کرے
ترجمہ: ١ اس لئے کہ حضور ۖ سے روایت ہے کہ آپ ۖ نے دعا کے وقت قبلے کا استقبال فر ما یا اور چادر کو پلٹا
وجہ : صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے ، جس میں ہے کہ دعا کر تے وقت قبلہ رخ کرے اور چادر کو بھی پلٹے ۔ عن عباد بن تمیم