(٦٦٦) ویجہر فیہما بالقرائة) ١ اعتبارا بصلوٰة العید(٦٦٧) ثم یخطب) ١ لما روی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم خطب
نہیں ہو ئی ، بلکہ اصل سنت تو دعا ہے اور کسی نے نماز پڑھ لی تب بھی ٹھیک ہے ۔ کیونکہ حدیث سے ثابت ہے ۔
ترجمہ : ٣ مصنف فر ماتے ہیں کہ اصل یعنی مبسوط میں صرف امام محمد کا قول ہے کہ استسقاء کی نماز پڑھی جائے ۔
تشریح : صاحب ھدایہ فر ما تے ہیں کہ اصل جسکو مبسوط کہتے ہیں یہ امام محمد کی کتاب ہے اس میں ہے کہ استسقاء کے لئے نماز پڑھنا صرف امام محمد کا قول ہے ۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ امام ابو یوسف کی رائے بھی یہی ہے کہ استسقاء کے لئے صرف دعا کا فی ہے ۔
ترجمہ: (٦٦٦) دو نوں رکعتوں میں قرأت جہری کرے ۔
ترجمہ: ١ عید کی نماز پر قیاس کر تے ہوئے ۔
تشریح : اوپر حضرت عبد اللہ ابن عباس کی حدیث گزری کہ استسقاء کی نماز عید کی نماز کی طرح پڑھی جائے گی ۔ اور عید میں قرأت زور سے کی جا تی ہے تو اس میں بھی زور سے ہی قرأت کی جا ئے گی ۔ اسلئے استسقاء کی نماز میں زور سے قرأت کی جائے گی ۔
وجہ : ( ١) اس حدیث میں ہے کہ استسقاء کی نماز میں زور سے قرأت کی ۔ عن عباد بن تمیم عن عمہ قال خرج النبی ۖ یستسقی فتوجہ الی القبلة یدعو وحول رداء ہ ثم صلی رکعتین یجھر فیھما بالقراء ة ۔ (بخاری شریف ، باب الجھر بالقراء ة فی الاستسقاء ص ١٣٩ نمبر ١٠٢٤ مسلم شریف ، کتاب صلوة الاستقاء ص ٢٩٣ نمبر ٨٩٤ ٢٠٧١ ابو داؤد شریف ، ابواب صلوة الاستسقاء ص ١٧١ نمبر ١١٦١) اس حدیث میں ہے کہ زور سے قرأت کی ۔
ترجمہ: (٦٦٧)پھر امام خطبہ دے ۔
ترجمہ: ١ سلئے کہ روایت کی گئی ہے کہ حضور ۖ نے خطبہ دیا ہے ۔
وجہ: (١)خطبہ دینے کے لئے صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے ۔ عن عائشة قالت شکا الناس الی رسول اللہ ۖ قحوط المطر فامر بمنبر فوضع لہ فی المصلی ... فقعد علی المنبر فکبر وحمد اللہ عزوجل الخ (ابو داؤد شریف ، باب رفع الیدین فی الاستسقاء ص ١٧٢ نمبر ١١٧٣) اس حدیث میں اس کا تذکرہ ہے کہ آپۖ کے لئے منبر رکھا گیا اور اس پر آپۖ بیٹھ گئے اور تکبیر و تحمید کی جس میں خطبہ کا اشارہ ہے۔ البتہ ایسا خطبہ نہیں دیا جو عیدین اور جمعہ میں دیا جاتا ہے۔ اسی لئے بعض حدیث میں ہے کہ اس طرح کا خطبہ نہیں دیا کرتے تھے(٢) عن أبی ھریرة قال : خرج رسول اللہ ۖ یوما یستسقی فصلی بنا رکعتین بلا اذان و لا أقامة ثم خطبنا و دعا اللہ و حول وجھہ نحو القبلة رافعا یدیہ ثم قلب ردائہ