٣ اما التطویل فی القراء ة فبیان الافضل ویخفِّف ان شاء لان المسنون استیعاب الوقت بالصلوٰة والدعاء فاذا خفف احدہما طول الاٰخر۔٤ واما الاخفاء والجہر فلہما روایة عائشة انہ صلی اﷲ علیہ وسلم جہر فیہا ٥ ولابی حنیفة روایة ابن عباس وسمرة بن جندب والترجیح قدمرمن قبل
وجہ : (١) ان کی دلیل یہ حدیث ہے۔ عن عائشة قالت جھر النبی ۖ فی صلوة الخسوف بقراء تہ (بخاری شریف ، باب الجھر بالقراء ة فی الکسوف ص ١٤٥ نمبر ١٠٦٥ ابو داؤد شریف ، باب القراء ة فی صلوة الکسوف ص ١٧٥ نمبر ١١٨٨ نسائی شریف ، باب الجھر بالقرأة فی صلاة الکسوف، ص ٢١٢، نمبر ١٤٩٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ نے قرأت جہری کی تھی۔اس لئے سورج گرہن کی نماز میں جہری قرأت سنت ہے۔
ترجمہ: ٣ پھر قرأت لمبی کر نا تو یہ افضلیت کا بیان ہے ۔ اور اگر چاہے تو قرأت مختصر بھی کرے ، اسلئے کہ مسنون تو نماز اور دعاء سے وقت کو گھیرنا ہے ، پس جبکہ ایک کو مختصر کیا تو دوسرے کو طول دے ۔
تشریح : سورج گرہن کی نماز میں لمبی قرأت کر نا واجب نہیں ہے بلکہ افضل ہے ۔ اور اصل بات یہ ہے کہ جب تک گرہن رہے اس وقت تک نماز اور دعاء دونوں میں سے کسی ایک میں مشغول رہنا چاہئے اور گرہن ختم تک ایسا کر نا چاہئے ،پس اگر لمبی قرأت کرے گا تو دعا کم کر نی ہو گی اور قرأت کم کرے گا تو دعا لمبی کر نی ہو گی اور اس وقت تک دعا کر تے رہنا پڑے گا جب تک گرہن مکمل ختم نہ ہو جائے ۔ اس لئے دو نوںمیں سے ایک کر نا ہو گا تاکہ گرہن کا پورا وقت گھر جائے ۔
وجہ : (١) اس حدیث میں اس کا ثبوت ہے ۔عن ابی ھریرة ...... فقال ان الشمس والقمر آیتان من آیت اللہ وانھما لایخسفان لموت احد فاذا کان ذلک فصلوا وادعوا حتی یکشف ما بکم۔(بخاری شریف ، باب الصلوة فی کسوف القمر ص ١٤٥ نمبر ١٠٦٣ مسلم شریف ، باب ذکر النداء بصلاة الکسوف ، الصلاة جامعة ، ص ٣٦٩، نمبر ٩١٥ ٢١٢٢) اس حدیث میں ہے کہ نماز پڑھو اور اس وقت تک دعا کرتے رہو جب تک گرہن ختم نہ ہو جائے۔۔ استیعاب : کا ترجمہ ہے وقت کو گھیرنا۔ خفف: ہلکا کر نا۔
ترجمہ: ٤ بہر حال قرأت پو شیدہ کر نا یا زور سے پڑھنا ، تو صاحبین کے لئے حضرت عائشہ کی حدیث ہے کہ حضور ۖ نے اس میں زور سے قرأت کی ۔
تشریح : صاحبین کی یہ روایت ابھی اوپر گزری ہے ۔ عن عائشة قالت جھر النبی ۖ فی صلوة الخسوف بقراء تہ (بخاری شریف ، باب الجھر بالقراء ة فی الکسوف ص ١٤٥ نمبر ١٠٦٥ )اس حدیث میں ہے کہ زور سے قرأت کی ۔
ترجمہ: ٥ اور امام ابو حنیفہ کی دلیل حضرت ابن عباس اور سمرة ابن جندب کی روایت ہے ۔ اور ترجیح پہلے گزر چکی ہے ۔