٣ والتشریق ہو الجہر بالتکبیر کذا نقل عن الخلیل بن احمد ٤ ولان الجہر بالتکبیر خلاف السنة والشرع وردبہ عند استجماع ہٰذہ الشرائط ٥ الا انہ یجب علی النساء اذا اقتدین بالرجل وعلی المسافرین عند اقتدائہم بالمقیم بطریق التبعیة۔
ترجمہ: ٣ تکبیر تشریق کا مطلب ہے کہ تکبیر کو زور سے پڑھے ، خلیل ابن احمد سے یہی منقول ہے ۔
تشریح : تکبیر تشریق کے بارے میں فر ماتے ہیں کہ خلیل ابن احمد لغت کے امام ہیں انہوں نے فر ما یا کہ تکبیر تشریق کا مطلب ہی ہے کہ اسکو زور سے پڑھا جائے ۔
وجہ : (١) تکبیر تشریق زور سے پڑھے اسکی دلیل یہ اثر ہے ۔ و کان عمر یکبر فی قبتہ بمنی فیسمعہ أھل المسجد فیکبرون و یکبر أھل الاسواق حتی ترتج منی تکبیرا ۔ ( بخاری شریف ، باب التکبیر أیام منی و اذا غدا الی عرفة ، ص ١٥٦، نمبر ٩٧٠) اس اثر میں ہے کہ حضرت عمر اتنے زور سے تکبیر کہتے کہ پورا منیٰ گونج جا تا ۔ جس سے معلوم ہوا کہ تکبیر کہنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ زور سے کہے (٢) تکبیر اعلان اورجھنڈوں میں سے ہے اور شعار ہے اسلئے اسکو اظہار کر نا چاہئے اسلئے بھی اسکو زور سے پڑھنا چاہئے ۔
ترجمہ : ٤ تکبیر کو زور سے پڑھنا خلاف سنت ہے اورشریعت ان تمام شرطوں کے ساتھ وارد ہو ئی ہے ]اس لئے ان شرطوں کے پائے جانے پر ہی تکبیر کہی جائے گی ورنہ نہیں [
تشریح : اوپر امام ابو حنیفہ کا قول گزرا کہ پانچ شرطوں کے ساتھ تکبیر تشریق کہی جائے گی ۔ (١)یہاں اسکی وجہ فر ما رہے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ زور سے تکبیر کہنا اس آیت کے خلاف ہے۔ أدعوا ربکم تضرعا و خفیة انہ لا یحب المعتدین ۔ ( آیت ٥٥، سورة الاعراف ٧)(٢) دوسری آیت میں ہے ۔اذکر ربک فی نفسک تضرعا و خیفة و دون الجھر من القول بالغدو و الآصال و لا تکن من الغافلین ۔ ( آیت ٢٠٥، سورة الاعراف ٧) ان دو نوں آیتوں میں ہے کہ اللہ کو آہستہ یاد کر نا چاہئے، اس لئے زور سے تکبیر کہنا خلاف سنت ہے اسلئے جن جن شرطوں کے ساتھ تکبیر تشریق زور سے کہنے کی اجازت ہو ئی ہے انہیں شرطوں کے ساتھ اجازت ہو گی انکے علاوہ کے ساتھ اجازت نہیں ہو گی ، اسی لئے امام ابو حنیفہ نے تکبیر کے لئے پانچ شرطیں لگائیں ۔ (٣) ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی نماز چھوٹ گئی ہے وہ لوگ جب نماز پڑھنے کھڑے ہو گے تو زور سے تکبیر کہنے کی وجہ سے حرج ہوگا ۔
ترجمہ: ٥ مگر یہ کہ عورتوں پر تکبیر کہنا واجب ہے جب وہ مرد کی اقتداء کریں ، اور مسافر پر جب وہ مقیم کی اقتداء کریں تابع ہو نے کے طریقے پر ۔