(٦٥٧) وہو عقیب الصلوات المفروضات علی المقیمین فی الامصار فی الجماعات المستحبة عند ابی حنیفة ولیس علیٰ جماعات النساء اذا لم یکن معہن رجل ولا علیٰ جماعة المسافرین اذا لم یکن معہم مقیم)
ہے۔ قلت لابی اسحاق : کیف کان یکبر علی و عبد اللہ ]ابن مسعود [ قال : کانا یقولان : اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔(مصنف ابن ابی شیبة ، باب ٤١٥، کیف یکبر یوم عرفة ، ج اول ، ص ٤٩٠، نمبر ٥٦٥٢) اس اثر میں ہے کہ یہ حضرات کس طرح تکبیر تشریق کہتے تھے ۔
ترجمہ: (٦٥٧) تکبیر تشریق فر ض نماز کے بعد ہے شہر میں مقیم پر مستحب جماعت میں ، امام ابو حنیفہ کے نزدیک ۔ ۔ چنانچہ عورتوں کی جماعت پر تکبیر تشریق نہیں ہے اگر انکے ساتھ مرد نہ ہو ۔ اور نہ مسافرین کی جماعت پر اگر انکے ساتھ مقیم نہ ہو ۔
تشریح : امام ابو حنیفہ کے نزدیک تکبیر تشریق کہنے کے لئے پانچ شرطیں ہیں ]١[ شہر ہو اس کا مطلب یہ ہوا کہ گاؤں اور دیہات میں تکبیر تشریق نہ کہے ]٢[مقیم ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسافر پر تکبیر واجب نہیں ، ہاں امام مقیم ہو تو اسکی اتباع میں مسافر بھی تکبیر تشریق کہے گا ۔ ]٣[ مستحب جماعت ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف عورتوں کی جماعت ہو تو وہ تکبیر تشریق نہ کہے ، کیوں کہ صرف عورتوں کی جماعت مستحب نہیں ہے ۔ ہاں مرد جماعت کرا رہا ہو اور اسکے پیچھے عورتیں ہوں تو وہ عورتیں تکبیر تشریق کہیں گیں ، کیونکہ مرد کی جماعت کرا نا مستحب ہے ]٤[ فرض نماز کے بعد ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر فرض نماز نہ ہو ، مثلا نفل ہو یا وتر ہو ، عید کی نماز ہو یا جنازہ کی نماز ہو تو اسکے بعد تکبیر تشریق نہیں ہے ]٥[ جماعت کے بعد ہو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آدمی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اسکے بعد تکبیر نہ پڑھے ، کیونکہ جماعت نہیں ہے
وجہ : (١) شہری پر تکبیر تشریق ہے گاؤں والوں پر نہیں اسکی دلیل یہ اثر ہے ۔ قال علی : لا جمعة و لا تشریق و لا صلاة فطر و لا اضحی الا فی مصر جامع او مدینة عظیمة ۔( مصنف ابن ابی شیبة ، باب ٣٣١، من قال لا جمعة و لا تشریق الا فی مصر جامع ، ج اول ، ص ٤٣٩، نمبر ٥٠٥٩مصنف عبد الرزاق ، باب القری الصغار ج ثالث ص ٧٠ نمبر٥١٩١) اس اثر میں ہے کہ تکبیر تشریق بڑے شہر میں کیا جا سکتا ہے ، اس لئے امام ابو حنیفہ کے نزدیک شہر میں تکبیر تشریق کہی جائے گی گاؤں میں نہیں ۔ (٢)فرض نماز کے بعد تکبیر پڑھے دوسری نمازوں کے بعد نہیں اسکی دلیل یہ حدیث ہے ۔ عن جابربن عبد اللہ قال کان رسول اللہ ۖ یکبر فی صلوة الفجر یوم عرفة الی صلوة العصر من آخر ایام التشریق حین یسلم من المکتوبات (دار قطنی ،کتاب العیدین ج ثانی ص ٣٧ نمبر ١٧١٩ سنن للبیھقی ، باب من استحب ان یبتدیٔ بالتکبیر خلف صلوة الصبح من یوم عرفة ج ثالث ص ٤٤٠،نمبر٦٢٧٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نویں کی صبح سے تیرہویں کی عصر تک تکبیر تشریق ہر فرض نماز