(٦٥٢) ویخطب بعدہا خطبتین ) ١ لانہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کذلک فعل (٦٥٣) ویعلّم الناس فیہما الاضحیة وتکبیرالتشریق ) ١ لانہ مشروع الوقت والخطبة ما شرعت الالتعلیمہ۔
شریف ، باب الصلوة قبل العید و بعدھا ص ١٣٥ نمبر ٩٨٩ مسلم شریف ، باب ترک الصلاة قبل العید و بعدھا فی المصلی ، ص ٣٥٦، نمبر ٨٨٤ ٢٠٥٧) اس حدیث میں ہے کہ آپۖ نے عید کی نماز صرف دو رکعت پڑھائی ۔اس لئے بقر عید کی نماز صرف دو رکعت ہوگی۔(٢)عن معمر عن الزھری و قتادة قالا : صلاة الضحی و الفطر رکعتان رکعتان ۔ ( مصنف عبد الرزاق، باب وجوب صلاة الفطر و الاضحی ، ج ثالث ، ص ١٧٢، نمبر ٥٧٢٧ مصنف ابن ابی شیبة ، باب الصلاة یوم العید من قال رکعتین ، ج ثانی ، ص ٨ ، نمبر ٥٨٥١) اس اثر میں ہے کہ بقرعید کی نماز بھی دو رکعتیں ہی ہیں ۔ ۔ اور پہلی حدیث سے یہ پتہ چلا کہ عید الفطر کی نماز دو رکعت ہے اسلئے اس پر قیاس کر کے بقرعید کی نماز بھی دو رکعت ہی ہو گی ۔
ترجمہ: (٦٥٢) اور اس کے بعد خطبہ دے گا دو خطبے۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ حضور ۖ نے ایسا ہی کیا ہے ۔
تشریح : بقرعید کی نماز کے بعد بھی دو خطبے دے ، کیونکہ حضور ۖ سے ایسا ہی منقول ہے ۔
وجہ : صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے (١)۔سمعت ابن عباس قال خرجت مع النبی ۖ یوم فطر او اضحی فصلی العید ثم خطب ثم اتی النساء فوعظھن (بخاری شریف،باب خروج الصبیان الی المصلی ،ص ١٣٢، نمبر ٩٧٥ مسلم شریف ، باب کتاب صلاة العیدین ، ص٣٥٤، نمبر ٢٠٤٥٨٨٤) اس حدیث میں خطبے کا تذکرہ ہے ،اور یہ بھی ہے کہ نماز کے بعد خطبہ دیا۔
اور دو خطبے ہوں اسکی دلیل یہ حدیث ہے (٢)عن جابر قال : خرج رسول اللہ ۖ یوم فطر أو أضحی فخطب قائما ثم قعد قعدة ثم قام ۔ ( ابن ماجة شریف ، باب ما جاء فی الخطبہ فی العیدین ، ص ١٨٣، نمبر ١٢٨٩) اس حدیث میں ہے کہ آپ ۖنے عید میں دو خطبہ دئے ۔
ترجمہ: (٦٥٣) اس میں قربانی کے احکام اور تکبیر تشریک کے احکام بتلائے ۔
ترجمہ : ١ اس لئے کہ وقت کا مشروع ہے ، اور خطبہ اسی کی تعلیم کے لئے مشروع ہوا ہے ۔
تشریح : بقرعید کے موقع پر جو خطبہ دے گا اس میں قربانی کے احکام بیان کرے ،اور تکبیر تشریق کے احکام بیان کرے ۔ کیونکہ یہ وقت کا تقاضا ہے اور اسی وقت کے تقاضے کو پورا کر نے کے لئے یہ خطبہ مشروع ہوا ہے ۔
وجہ : حدیث میں بقرعید کے خطبے میں قربانی کے احکام کو بیان فر ما یا ہے ، حدیث یہ ہے ۔ (١) عن البراء قال : خطبنا النبی