١ لان الاصل فیہا ان لاتقضی کالجمعة الا انا ترکناہ بالحدیث وقدورد بالتاخیر الی الیوم الثانی عند العذر (٦٤٨) ویستحب فی یوم الاضحی ان یغتسل ویتطیب ) ١ لما ذکرناہ۔
(٦٤٩) ویؤخرالاکل حتی یفرغ من الصلوٰة) ١ لما روی ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان لایطعم فی یوم النحر حتی یرجع فیأکل من اضحیتہ
جائے گی۔
ترجمہ: ١ اصل قاعدہ اس میںیہ ہے کہ جمعہ کی طرح اسکی قضاء نہ کی جائے مگر حدیث کی وجہ سے ہمنے اس بات کو چھوڑ دیا ، اور حدیث میں عذر کی وجہ سے دوسرے دن تک تاخیر کی بات وارد ہو ئی ہے ۔
تشریح : دوسرے دن بھی کسی عذر کی وجہ سے عید الفطر کی نماز نہیں پڑھ سکا تو اب تیسرے دن عید الفطر کی نما نہیں پڑھی جائے گی البتہ بقرعید کی نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اسکا مسئلہ آگے آرا ہا ہے ۔
وجہ: جمعہ کی نماز کی طرح عید کی بھی قضا نہیں ہونی چاہئے لیکن حدیث مذکور کی وجہ سے خلاف قیاس دوسرے دن قضا کروایا۔ لیکن تیسرے دن قضا کرنے کی حدیث نہیں ہے اس لئے تیسرے دن عید الفطر کی قضا نہیں کرے۔
ترجمہ: (٦٤٨) عید الاضحی کے دن مستحب ہے کہ غسل کرے،خوشبو لگائے۔
ترجمہ ١ اس حدیث کی بنا پر جو پہلے بیان کیا ۔
تشریح : عید الاضحی بھی عید الفطر کی طرح ہے اسلئے جو باتیں اس میں سنت ہیں وہ باتیں بقرعید میں بھی سنت ہو نگی ۔
وجہ : (١)حدیث یہ ہے۔ عن ابی سعید الخدری وابی ھریرة قالا قال رسول اللہ ۖ من اغتسل یوم الجمعة و لبس من احسن ثیابہ ومس من طیب ان کان عندہ ثم اتی الجمعة۔ (ابو داؤد شریف ،باب الغسل للجمعة ص ٥٦ نمبر ٣٤٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن غسل کرے۔اچھے کپڑے پہنے اور خوشبو ملے اور عیدین بھی جمعہ کی طرح اجتماع ہیں اس لئے ان میں بھی یہ کام کرنا سنت ہونگے ۔باقی تفصیل مسئلہ نمبر ٦٣٦ میں گزر چکی ہے ۔
ترجمہ: (٦٤٩) اور کھانا مؤخر کرے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو جائے ۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ روایت کی گئی ہے کہ حضور ۖ دسویں ذی الحجہ کو نہیں کھاتے یہاں کہ نماز سے واپس ہو تے ، اور قربانی کے گوشت میں سے ہی کھاتے ۔
تشریح : بقرعید پر سنت یہ ہے کہ کھانا نماز کے بعد کھائے ، بلکہ بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت سے افطار کرے ۔
وجہ:(١) عن عبد اللہ بن بریدة عن ابیہ قال کان النبی ۖ لا یخرج یوم الفطر حتی یطعم ، و لا یطعم یوم