تشریح : سورج نکلتے وقت کوئی بھی نماز پڑھنا حرام ہے ، اسلئے جب سورج تھوڑا بلند ہو جائے یعنی ایک نیزہ یا دو نیزے کے برابر اونچا ہو جائے تب کوئی بھی نماز پڑھنا حلال ہو جا تا ہے اور اسی وقت سے عید کی نماز کا وقت شروع ہو تا ہے ، اور سورج سر پر آنے تک یعنی ٹھیک دو پہر سے پہلے تک نماز جائز ہے اور ٹھیک دو پہر کے وقت نماز پڑھنا حرام ہو جا تا ہے ، اس وقت تک عید کا بھی وقت رہتا ہے اسکے بعد عید کا وقت ختم ہو جا تا ہے ، پس اگر ٹھیک دو پہر سے پہلے عید کی نماز پڑھ لی تو ٹھیک ہے اور اگر کسی وجہ سے اس وقت سے پہلے نماز نہ پڑھ سکے تو اب دوسرے دن نماز پڑھے ، آج اسکا وقت ختم ہو گیا ۔
لغت : رمح : نیزہ ، بھالا ، بھالا کے اگلے حصے میں دھار دار لو ہا لگا ہو تا ہے اور اسکو پکڑ کر پھینکنے کے لئے پچھلے حصے میں تقریبا ساڑھے چار فٹ کی لاٹھی لگی ہو تی ہے اس طرح نیزے کی لمبائی پانچ فٹ ہو تی ہے ، اور دو نیزے کی لمبائی دس فٹ ہو گی ۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سورج افق سے پانچ فٹ ، یا دس فٹ اونچا ہو جائے تب کوئی نماز پڑھنا حلال ہو گا اور عید کی نماز کا وقت شروع ہو گا ۔ سوج نکلنے سے دس منٹ کے بعد نماز کا وقت شروع ہو جا تا ہے ۔ سورج کی نچلی کناری افق کو چھوڑ دے تو قاعدے کے اعتبار سے نماز حلال ہو جائے گی ۔ سورج نکلنے کا جو ٹائم دیا ہو تا ہے اس سے پانچ منٹ کے بعد نماز حلال ہو جائے گی ، البتہ احتیاط اس میں ہے کہ سورج نکلنے کے ٹائم سے دس منٹ کے بعداشراق پڑھے ۔
وجہ: (١)آفتاب ایک نیزہ یا دو نیزہ اوپراٹھ جائے تو عید کا وقت ہو گا اور زوال تک رہے گا اسکی دلیل یہ حدیث ہے ۔ جو صاحب ھدایہ نے نقل کی ہے ۔ عن عمر و بن عنبسة السلمی أنہ قال قلت یا رسول اللہ ! أی اللیل اسمع ؟ .....حتی تصلی الصبح ثم اقصر حتی تطلع الشمس فترتفع قیس رمح أو رمحین فانھا تطلع بین قرنی شیطان و یصلی لھا الکفار ، ثم صل ما شئت فان الصلاة مشھودة مکتوبة حتی یعدل الرمح ظلہ ثم اقصر فان جھنم تسجر و تفتح ابوابھا ۔ ( ابو داود شریف ، باب من رخص فیھما اذا کانت الشمس مرتفعة ، ص ١٩١، نمبر ١٢٧٧) اور نسائی شریف کی حدیث میں صرف قید رمح ہے یعنی ایک نیزہ سورج اوپر ہو جائے تو نماز حلال ہے ، ۔ سمعت عمر وبن عبسة یقول ....فدع الصلاة حتی ترتفع قید رمح و یذھب شعاعھا ثم الصلاة محضورة مشھودة حتی تعتدل الشمس اعتدال الرمح بنصف النھار( نسائی شریف ، باب النھی عن الصلوة بعد العصر ، ص ٧٩، نمبر ٥٧٣) اس حدیث میں ہے کہ سورج ایک نیزہ تک بلند ہو جائے تو نماز حلال ہے اور زوال تک حلال رہے گا ، یہی عید کی نماز کا وقت ہے ۔ (٢) قال خرج عبد اللہ بن بسر صاحب رسول اللہ ۖ مع الناس فی یوم عید الفطر او اضحی فانکر ابطاء الامام فقال انا کنا قد فرغنا ساعتنا ھذہ وذلک حین التسبیح۔ (ابو داؤد شریف، باب وقت الخروج الی العید ص ١٦٨ نمبر ١١٣٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تسبیح یعنی نماز اشراق کے وقت آپۖ ۖ نماز عید سے فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ اس لئے یہی وقت نماز عید کا ہوگا (٣)پہلے ضروری نوٹ میں ایک حدیث بخاری کی گزری جس میں یہ لفظ تھا ۔عن البراء بن عازب قال قال سمعت النبی