(٦٣٤) واذا صعد الامام المنبر جلس واذن المؤذنون بین یدی المنبر ) ١ بذلک جری التوارث ٢ ولم یکن علیٰ عہد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الا ہٰذا الاذان ولہٰذا قیل ہو المعتبر فی وجوب السعی وحرمة البیع والاصح ان المعتبر ہو الاول اذا کان بعد الزوال لحصول الاعلام بہ.
نے اضافہ کیا ہے۔اور اس وقت بھی جمعہ کے لئے اذان دی جاتی ہے اس لئے اب اسی وقت جمعہ کے لئے سعی کرنا ہوگا۔(٣) اس کی تائید میں یہ اثر ہے قال لی مسلم بن یسار اذا علمت ان النھار قد انتصفت یوم الجمعة فلا تبتاعوا شیئا ۔ (مصنف بن ابی شیبة ،٣٧٢ الساعة التی یکرہ فیھا الشراء والبیع ج اول، ص ٤٦٥،نمبر٥٣٨٣(٤) قلت للزھری متی یحرم البیع والشراء یوم الجمعة فقال کان الاذان عند خروج الامام فاحدث امیر المؤمنین عثمان التأذینة الثالثة فاذن علی الزوراء لیجتمع الناس فاری ان یترک الشراء والبیع عند التأذینة (مصنف بن ابی شیبة ،٣٧٢ الساعة التی یکرہ فیھا الشراء والبیع ،ج اول، ص٥٣٨٩ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اذا ن اول کے پاس پاس ہی خریدو فروخت چھوڑ دینا چاہئے۔ کیونکہ وہی ندا ہے۔
ترجمہ: (٦٣٤)جب امام منبر پر چڑھ جائے تو منبر پر بیٹھے اور مؤذن منبر کے سامنے اذان دے] پھر امام خطبہ دے[۔
تشریح :یہ خطبہ کے آداب ہیں کہ جب امام خطبہ کے لئے بیٹھے تو مؤذن اسکے سامنے اذان دے، حضور ۖ کے زمانے سے یہی طریقہ آرہا ہے۔
وجہ: (١)اس سب کی دلیل یہ حدیث ہے ۔ عن سائب بن یزید قال کان یؤذن بین یدی رسول اللہ ۖ اذا جلس علی المنبر یوم الجمعة علی باب المسجد وابی بکر و عمر۔(ابو داؤد شریف ، باب النداء یوم الجمعة ص ١٦٢ نمبر ١٠٨٨ بخاری شریف ، باب التأذین عند الخطبة ص ١٢٤ نمبر ٩١٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام منبر پر بیٹھے گا اس وقت اس کے سامنے اذان ثانی دی جائے گی۔اس کے بعد امام خطبہ دے گا۔
ترجمہ : ١ حضور ۖ کے زمانے سے یہی طریقہ آر ہا ہے ۔اسکے لئے اوپر حدیث گزر گئی ۔
ترجمہ: ٢ اور حضور ۖ کے زمانے میں یہی پہلی اذان تھی ، اسی لئے بعض حضرات نے فر مایا کہ جمعہ کی طرف سعی کے واجب ہو نے میں اور خرید و فروخت حرام ہو نے میں یہی اذان معتبرہے، صحیح بات یہ ہے کہ پہلی اذان معتبر ہے اگر زوال کے بعد ہو اس سے اعلان کے حاصل ہو نے کی وجہ سے
تشریح : پہلے گزر چکا ہے کہ حضور ۖ کے زمانے میں صرف وہ اذان تھی جو خطبہ کے وقت امام کے سامنے دی جاتی ہے ، لیکن حضرت عثمان نے دیکھا کہ لوگ بہت ہو گئے ہیں اور آنے میں تاخیر کر تے ہیں تو شروع کی ایک اور اذان بڑھا دی ۔ تو چونکہ حضور ۖ کے زمانے