(٦٣١) وان کان ادرکہ فی التشہد اوفی سجود السہوبنی علیہا الجمعة عندہما وقال محمد ان ادرک معہ اکثر الرکعة الثانیة بنی علیہا الجمعة)
کرے گا(٢) حدیث میں ہے عن ابی ھریرة ان رسول اللہ قال من ادرک من الجمعة رکعة فلیضف الیھا اخری ۔ (دار قطنی باب فیمن یدرک من الجمعة رکعة او لم یدرکھا ج ثانی ص ٨ نمبر ١٥٧٩ سنن بیہقی، باب من ادرک رکعة من الجمعة ، ج ثالث ، ص ٢٨٧، نمبر ٥٧٣٥ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کے ساتھ جتنی پائے وہ ٹھیک ہے باقی اسی پر بنا کرکے پوری کرے گا۔
ترجمہ: (٦٣١) اگر امام کو تشہد میں پایا یا سجدۂ سہو میں پایا تو اس پر جمعہ کا بنا کرے گا امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک اور امام محمد نے فرمایا کہ اگر امام کے ساتھ دوسری رکعت کا اکثر پایا تو اس پر جمعہ کا بنا کرے گا اور اگر امام کے ساتھ اکثر سے کم پایا تو اس پر ظہر کا بنا کرے گا ۔
تشریح: شیخین کے نزدیک یہ ہے کہ سلام پھیرنے سے پہلے امام کے ساتھ مل گیا تو امام کی اتباع میں جمعہ ہی پڑھے گا ظہر نہیں پڑھے گا۔اور امام محمد کے نزدیک یہ ہے کہ دوسری رکعت کا اکثر حصہ امام کے ساتھ ملا ہے تب تو جمعہ پڑھے گا اور اگر اکثر نہیں ملا ہے تو چونکہ جمعہ کے لئے جماعت شرط ہے اور اکثر حصہ میں جماعت نہیں ملی اس لئے اب جمعہ نہیں پڑھے گا بلکہ ظہر کی چار رکعت پڑھے گا۔
وجہ: (١)شیخین کی دلیل یہ حدیث ہے ۔عن ابی ھریرة عن النبی ۖ قال اذا سمعتم الاقامة فامشوا الی الصلوة وعلیکم السکینة والوقار ولا تسرعوا فما ادرکتم فصلوا وما فاتکم فاتموا ۔ (بخاری شریف ، باب لا یسعی الی الصلوةولیاتھا بالسکینة والوقار،ص ٨٨، نمبر ٦٣٦ مسلم شریف ، باب استحباب اتیان الصلوة بوقار و سکینة ، و النھی عن اتیانھا سعیا ، ص ٢٤٣، نمبر ٦٠٢ ١٣٥٩) اس حدیث میں ہے کہ جتنا ملا وہ امام کے ساتھ پڑھو اور جتنا فوت ہو گیا اس کو اسی پر بنا کرلو،تو امام کے ساتھ سلام سے پہلے ملا تو اتنا امام کے ساتھ پڑھے گا اور باقی کا اسی پر بنا کرے گا۔ چاہے دوسری رکعت کا اکثر ملا ہو یا اقل ملا ہو(٢) سلام سے پہلے بھی امام کے ساتھ ملا ہو اس کی اتباع میں وہی نماز پڑھنی چاہئے جو انہوں نے پڑھی ہے یعنی جمعہ (٣) ایک حدیث میں ہے عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ من ادرک الامام جالسا قبل ان یسلم فقد ادرک الصلوة ۔ (دار قطنی ، باب فیمن یدرک من الجمعة رکعة او لم یدرکھا ج ثانی ص ١٠ نمبر ١٥٨٩)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام سے پہلے بھی امام کے ساتھ مل جائے تو گویا کہ اس نے جمعہ پا لیا۔اس لئے اب دو رکعت جمعہ ہی پڑھے گا۔
وجہ: امام محمد کی دلیل حدیث میں ہے۔ عن ابی ھریرة ان رسول اللہ قال من ادرک من الجمعة رکعة فلیضف الیھا اخری ۔ (دار قطنی باب فیمن یدرک من الجمعة رکعة او لم یدرکھا ج ثانی ص ٨ نمبر ١٥٧٩ سنن بیہقی، باب من ادرک رکعة من الجمعة ، ج ثالث ، ص ٢٨٧، نمبر ٥٧٣٥ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کے ساتھ جتنی پائے وہ ٹھیک ہے باقی اسی پر بنا کرکے