(٦١٩) وقالا لا بدمن ذکر طویل یسمی خطبة) ١ لان الخطبة ہی الواجبةوالتسبیحة والتحمیدة لاتسمی خطبة ٢ وقال الشافعی لایجوز حتی یخطب خطبتین اعتبار اللمتعارف
(مصنف ابن ابی شیبة ، باب الخطبة تطول أو تقصر ، ج اول ، ص ٤٥٠، نمبر ٥١٩٨) اس حدیث سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ خطبہ مختصر ہو ۔ اسکے اشارے سے معلوم ہو تا ہے کہ صرف ذکر سے بھی خطبہ اداء ہو جائے گا (٥) اس کی دلیل یہ حدیث ہے حدثنا شعیب بن رزیق الطائفی ... فقام (رسول اللہ ۖ) متوکئا علی عصا او قوس فحمد اللہ واثنی علیہ کلمات خفیفات طیبات مبارکات (ابو داؤد شریف ، باب الرجل یخطب علی قوس ص ١٦٣ نمبر ١٠٩٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ کا خطبہ بہت مختصر ہوتا تھا (٢) اثر میں ہے۔ عن الشعبی قال یخطب یوم الجمعة ما قل او کثر (مصنف عبد الرزاق ، باب وجوب الخطبة ج ثالث ص ٢٢٢ نمبر ٥٤١٢ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ کم خطبہ ہو تب بھی کافی ہو جائے گا۔
ترجمہ: (٦١٩) اور صاحبین فر ماتے ہیں کہ اتنا لمبا جملہ ہو کہ جسکو خطبہ کا نام دیا جا سکے ۔
تشریح: صاحبین فرماتے ہیں کہ اتنا لمبا خطبہ ہو جس کو خطبہ کہہ سکیں۔ اس لئے کہ حضورۖ نے عموما اتنا لمبا خطبہ دیا ہے جس کو خطبہ کہہ سکتے ہیں۔
ترجمہ: ١ اسلئے کہ خطبہ واجب ہے اور تسبیح ، یا الحمد للہ کو خطبہ نہیں کہتے ۔
تشریح : صاحبین کی دلیل ہے کہ نماز جمعہ کے لئے خطبہ واجب ہے تو کم سے کم اتنا لمبا خطبہ ہو کہ اسکو عرف عام میں خطبہ کہا جا سکے ، اور صرف سبحان اللہ ، یا الحمد للہ کو خطبہ نہیں کہتے اسلئے صرف اتنا کہنے سے خطبہ اداء نہیں ہو گا ۔ اور اوپر جو مختصر خطبے کا ذکر تھا اس سے صرف الحمد للہ مراد نہیں ہے بلکہ مختصر خطبہ مراد ہے ۔
ترجمہ : ٢ اور امام شافعی نے فر ما یا کہ خطبہ جائز نہیں ہو گا جب تک کہ دو خطبہ نہ دے ۔عام عرف کا اعتبار کر تے ہو ئے ۔
تشریح : امام شافعی فر ما تے ہیں کہ دو خطبے ہوں تب خطبے کی ادائیگی ہو گی ۔ مو سوعة کی عبارت یہ ہے ۔ قال الشافعی ...و اقل ما یقع علیہ اسم خطبہ من الخطبتین أن یحمد اللہ تعالی و یصلی علی النبی ۖ و یقرأ شیئا من القرآن فی الاولی ، و یحمد اللہ عز ذکرہ و یصلی علی النبی ۖ و یوصی بتقوی اللہ و یدعو فی الآخرة ... فان جعلھا خطبتین لم یفصل بینھما بجلوس أعاد خطبتہ، فان لم یفعل صلی الظھر أربعا ۔ ( مو سوعة امام شافعی ، باب ادب الخطبة ، ج ثالث ، ص ٨٨، نمبر ٢١٢٠) اس میں ہے کہ دو خطبے دے ۔ اور ایک خطبہ دیا تو ظہر کی نماز چار رکعت پڑھے۔
وجہ : (١) اسکی وجہ یہ فر ماتے ہیں کہ حضور ۖ نے ہمیشہ دو خطبے دئے ہیں ۔حدیث یہ ہے ۔ عن عبد اللہ بن عمر قال : کان النبی ۖ یخطب خطبتین یقعد بینھما ۔ (بخاری شریف ، باب القعدة بین الخطبتین یوم الجمعة ، ص ١٤٩، نمبر ٩٢٨ مسلم