٢ وللفصل بینہا وبین الصلوة(٦١٨) فان اقتصر علٰی ذکر اﷲ جاز عند ابی حنیفة )
ابن عمر قال کان النبی ۖ یخطب قائماثم یقعد ثم یقوم کما یفعلون الآن۔ (بخاری شریف ، باب الخطبة قائما ص ١٢٥ نمبر ٩٢٠ مسلم شریف باب ذکر الخطبتین قبل الصلاة و ما فیھما من الجلسة، ص ٢٨٣ کتاب الجمعہ نمبر ١٩٩٤٨٦١ ابو داؤد شریف ، باب الخطبة قائما ص ١٦٣ نمبر ١٠٩٤) اس حدیث میں ہے کہ خطبہ کھڑا ہو کر دے
ترجمہ: ٢ اور فصل ہو جائے گا خطبہ اور نماز کے درمیان ۔
تشریح :۔ اس جملے کا تعلق طہارت سے ہے ، اور بغیر وضو کے خطبہ دینا مکروہ ہے اسکی دلیل عقلی ہے ۔ یعنی اگر بغیر وضو کے خطبہ دے دیا تو اسکے بعد وضو کر نے جائے گا پھر نماز پڑھائے گا ، تو نماز اور خطبہ کے درمیان وضو کر نے کا فصل ہو گا اسلئے بھی بغیر وضو کے خطبہ دینا مکروہ ہے ۔
ترجمہ: (٦١٨) پس اگر اللہ تعالی کے ذکر پر اکتفاء کیاتو امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز ہو جائے گا ۔
تشریح:امام ابو حنیفہ کی رائے ہے کہ خطبہ تو اتنا لمبا ہو نا چاہئے جسکو عام عرف میں خطبہ کہتے ہیں، جس میںاللہ تعالی کی تعریف ، قرآن کی آیت ہو ، حضور ۖ پر درود شریف ہو ، عام لو گوں کے لئے نصیحت ہو ۔ لیکن اگر کسی نے خطبہ کی غرض سے صرف الحمد للہ ، کہہ دیا ، سبحان اللہ ، کہہ دیا تو اس سے خطبہ اداء ہو جائے گا یا نہیں ؟ تو امام اعظم فر ماتے ہیں کہ اس سے خطبہ اداء ہو جائے گا اور اس سے نماز جائز ہو جائے گی ۔
وجہ : (١) اسکی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں خطبہ کو ذکر فر مایا ہے ،جسکا مطلب یہ ہوا کہ صرف ذکر سے خطبہ اداء ہو جائے گا ۔ آیت یہ ہے ۔ یاایھا الذین آمنوا اذا نودی للصلوة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع ۔ (آیت ٩ سورة الجمعة ٦٢) اس آیت میں فاسعوا الی ذکر اللہ ، کہا ، اور ذکر اللہ سے یہاں خطبہ مراد ہے جس سے معلوم ہوا کہ صرف اللہ کا ذکر الحمد للہ سے خطبہ اداء ہو جائے گا ۔ (٢) حضرت عثمان جب خلیفہ بنائے گئے تو جمعہ کے خطبہ کے لئے اٹھے تو الحمد للہ ، کہہ پائے اور کپکپی طاری ہو گئی اور نیچے اتر گئے اور اتنا ہی جملے سے خطبہ ہو گیا ، وہاں کبار صحابہ مو جود تھے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس سے خطبہ نہیں ہو ا جس سے معلوم ہوا کہ صرف الحمد للہ ، کہنے سے خطبہ ہو جائے گا ۔(٣) اس حدیث میں بھی اسکا اشارہ ہے ۔ قال ابو وائل : خطبنا عمار فأوجز و أبلغ ، فلما نزل قلنا : یا أباالیقظان ! لقد أبلغت و أوجزت فلو کنت تنفست ! فقال انی سمعت رسول اللہ ۖ یقول : ان طول صلوة الرجل و قصر خطبتہ مئنة من فقھہ فأطیلوا الصلوة و اقصروا الخطبة ، و ان من البیان سحرا ۔ ( مسلم شریف ، باب تخفیف الصلوة و الخطبة ، ص ٣٤٩، نمبر ٨٦٩ ٢٠٠٩) اس حدیث میں ہے کہ خطبہ مختصر ہو تو بھی وہ خطبہ ہے (٤) عن جابر بن سمرة قال کانت خطبة النبی ۖ قصدا و صلاتہ قصدا ۔