١ لان الاقامة تتعلق بدخولہا فیتعلق السفر بالخروج عنہا ٢ وفیہ الاثر عن علی لوجاوزنا ہٰذا الخُصَّ لقصرنا(٥٩٣) ولا یزال علیٰ حکم السفر حتی ینوی الاقامة فی بلدة اوقریة خمسة عشریومًا اواکثروان نوی اقل من ذٰلک قصر )
کے باہر بانس کے جھونپڑے تھے اس لئے حضرت علی نے فرمایا کہ ان جھونپڑوں سے آگے بڑھتے تو دو رکعت نماز پڑھتے لیکن ان جھونپڑوں کے پاس ہیں اس لئے چار رکعت نماز پڑھیںگے۔کیونکہ فنائے شہر میں ابھی موجود ہیں۔
ترجمہ : ١ اسلئے کہ اقامت وطن میں داخل ہو نے سے تعلق رکھتا ہے ، تو سفر اس سے نکلنے سے تعلق رکھے گا ۔
تشریح : یہ دلیل عقلی ہے ۔ وطن میں داخل ہو تو آدمی مقیم ہو جا تا ہے ۔ اسی پر قیاس کر تے ہوئے آدمی وطن سے با ہر نکلے تو مسافر بنے گا۔ اور فنائے شہر تک وطن سمجھا جا تا ہے اسلئے فنائے شہر سے باہر نکلے گا تب وطن سے باہر نکلنا شمار کیا جائے گا ۔
ترجمہ : ٢ اسکے بارے میں حضرت علی کا قول ہے کہ اگر اس جھونپڑے سے آگے بڑھتا تو قصر کر تا ۔
تشریح : حضرت علی کا یہ اثر اوپر گزر گیا ہے۔
ترجمہ (٥٩٣) ہمیشہ مسافرت کے حکم پر رہے گا۔یہاں تک کہ کسی شہر میں یا گاؤں میں پندرہ دن کی اقامت کی نیت کرے یا زیادہ کی۔پس اس کو اتمام لازم ہوگا۔اور اگر اس سے کم اقامت کی نیت کی توقصر کرے گا ۔
تشریح : کسی ایک شہر یا گاؤں میں پندرہ دن تک ٹھہرنے کی نیت کرے گا تو وہ وطن اقامت ہو جائے گا اس لئے اب وہ دو رکعت نماز کے بجائے چار رکعت نماز پڑھے گااور اتمام کرے گا۔ اور اگر کسی شہر میں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی تو وہ قصر ہی کرے گااتمام نہیں کرے گا۔ کیونکہ حنفیہ کے نزدیک پندرہ دن سے کم وطن اقامت نہیں ہے۔
وجہ: (١)حدیث میں ہے۔ عن ابن عباس قال اقام النبی ۖ تسعة عشر یقصر فنحن اذا سافرنا تسعة عشر قصرنا وان زدنا اتممنا۔ (بخاری شریف ، باب ما جاء فی التقصیرکم یقیم حتی یقصر ص ١٤٧ نمبر ١٠٨٠ ابو داؤد شریف ، باب متی یتم المسافر ص ١٨٠ نمبر ١٢٢٩) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مکہ مکرمہ میں انیس روز رہے ہیں ۔ابو داأد کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہ روز رہے ہیں۔ اور ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سترہ روز رہے ہیں اور پھر بھی قصر کرتے رہے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سترہ دن یا انیس دن سے کم اقامت کرے تو قصر کرے گا۔(٢)اور بخاری شریف ، مسلم شریف اور ابو داؤد شریف کی دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپۖ مکہ میں دس دن ٹھہرے تھے۔ سمعت انسا یقول خرجنا مع النبی ۖ من المدینة الی مکة فکان یصلی رکعتین رکعتین حتی رجعنا الی المدینة قلت اقمتم بمکة شیئا؟ قال اقمنا عشرا ۔ (بخاری شریف ، باب ماجاء فی التقصیر وکم یقیم حتی یقصر ص ١٤٧ نمبر ١٠٨١ مسلم شریف ، فصل الی متی یقصر اذا اقام ببلدہ ص ٢٤٣ نمبر