١ وقال الشافعی فرضہ الاربع والقصر رخصة اعتبارا بالصوم
ترجمہ: ١ حضرت امام شافعی نے فر ما یا کہ مسافر کا فرض تو چار رکعت ہے البتہ قصر کر نا رخصت ہے ۔وہ قیاس کر تے ہیں روزے پر ۔
تشریح : حضرت امام شافعی ، امام مالک ، اور امام احمد کے نزدیک بھی سفر میں قصر کر نا رخصت ہے اور چار رکعت پڑھنا افضل ہے ، یعنی اگر دو رکعت پڑھ لی تب بھی ٹھیک ہے کوئی کراہیت نہیں کیونکہ حدیث سے ثابت ہے ۔ لیکن اگر چار رکعت پڑھے تو افضل ہے ۔ موسوعة میں عبارت یہ ہے ۔ قال الشافعی : القصر فی الخوف و السفر بالکتاب ، ثم بالسنة ، و القصر فی السفر بلا خوف سنة ، و الکتاب یدل علی ان القصر فی السفر بلا خوف رخصة من اللہ عز و جل ، لا أن حتما علیھم أن یقصروا کما کان ذالک فی الخوف ۔ ( موسوعة امام شافعی ، باب صلوة المسافر،ج ثانی ، ص ٨، نمبر ١٨٤٥) اس عبارت میں ہے کہ قصر کر نا واجب نہیں ہے رخصت ہے ۔
وجہ: (١)انکی دلیل یہ آیت ہے ۔ و اذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح أن تقصروا من الصلوة ان خفتم أن یفتنکم الذین کفروا ( سورة النساء ٤،آیت ١٠١) اس آیت میں ہے کہ جب سفر کرو تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ نماز میں قصر کرو۔ اس حرج کے جملے سے پتہ چلتا ہے کہ قصر کرے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے ، اور اتمام کرے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسلئے اتمام افضل ہو گا ۔ البتہ چونکہ قصر حدیث سے ثابت ہے اسلئے اسکو مکروہ نہیں سمجھنا چاہئے ۔ (٢)حدیث میں ہے ۔عن عبد اللہ قال صلیت مع النبی ۖ بمنی رکعتین وابی بکر وعمر و مع عثمان صدرا من امارتہ ثم اتمھا (بخاری شریف ، باب ماجاء فی التقصیر ص ١٤٧ نمبر ١٠٨٢) اس حدیث میں حضرت عثمان نے سفر میں اتمام فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اتمام کرنا بھی جائز ہے۔(٣) عن عائشة أن النبی ۖ کان یقصر فی السفر و یتم ، و یفطر و یصوم ۔( دار قطنی ، کتاب الصوم ، باب القبلة للصائم ، ج ثانی ، ص ١٦٨، نمبر ٢٢٧٥ سنن بیہقی باب من ترک القصر فی السفر غیر رغبة عن السنة ، ج ثالث ، ص ٢٠٣، نمبر ٥٤٢٤) اس حدیث میں ہے کہ حضور ۖ قصر بھی فر ماتے تھے اور اتمام بھی ، اسلئے اتمام کر نا بھی جائز ہے ۔ (٤)عن عائشة قالت : خرجت مع رسول اللہ ۖ فی عمرة رمضان فأفطر رسول اللہ ۖ و صمت ُ و قصر و أتممت ُ ، فقلت یا رسول اللہ ۖ بأبی انت و أمی أفطرت َ و صمت ُ ، و قصرت َ و أتممت ُ ، قال : ((أحسنت ِ یا عائشة )) ( دار قطنی ، کتاب الصوم ، باب القبلة للصائم ، ج ثانی ، ص ١٦٧، نمبر ٢٢٧٠ سنن بیہقی باب من ترک القصر فی السفر غیر رغبة عن السنة ، ج ثالث ، ص ٢٠٣، نمبر ٥٤٢٧) اس حدیث میں تو حضرت عائشہ کے اتمام کر نے پر آپ ۖ نے انکو سراہا ، جس سے معلوم ہوا کہ اتمام کر نا بھی جائز ہے ۔ (٥) ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سفر میں روزے نہ رکھنا رخصت ہے اسی طرح قصر کر نا بھی رخصت ہو گا ۔