٢ ولہما ان الاصل فی السنة لاتقضی لاختصاص القضاء بالواجب۔
بارے میں آپ ۖ نے فر مایا کہ کسی کو سنت پڑھنا ہو تو پڑھو جس سے معلوم ہوا کہ اب یہ سنت اہم نہیںرہی ۔ حدیث یہ ہے ۔ حدثنی ابو قتادة الانصاری فارس رسول اللہ ۖ قال : بعث رسول اللہ ۖ جیش الامراء ، بھذہ القصة .....حتی اذا تعالت الشمس قال رسول اللہ ۖ (( من کان منکم یرکع رکعتی الفجر فلیرکعھما )) فقام من کان یرکعھما و من لم یکن یرکعھما ، فرکعھما ۔ ( ابو داود شریف، باب فی من نام عن صلوة أو نسیھا ، ص ٧٥ ، نمبر ٤٣٨) اس حدیث میں ہے کہ جسکو سنت پڑھنی ہو وہ پڑھے ، جس سے معلوم ہوا کہ وقت سے ہٹ جانے کے بعد سنت نفل ہو جاتی ہے۔
اور امام محمد فر ماتے ہیں کہ فجر کی سنت بغیر فر ض کے بھی فوت ہو جائے تو افضل یہ ہے کہ زوال سے پہلے پہلے اسکی قضا ء کر لے ، البتہ یہ قضاء کر نا واجب نہیں ہے صرف افضل ہے ۔
وجہ : ( ١) فجر کی سنت کی بہت اہمیت ہے اسلئے اسکی قضاء افضل ہے (٢) حدیث میں ہے کہ فجر کی سنت فوت ہو جائے تو سورج طلوع ہو نے کے بعد اسکو پڑھے ۔ حدیث یہ ہے ۔عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ (( من لم یصل رکعتی الفجر فلیصھما بعد ما تطلع الشمس ۔ ( ترمذی شریف ، باب ما جاء فی اعادتھما بعد طلوع الشمس ، ص ١١٤، نمبر ٤٢٣ ابن ماجہ ، شریف ، باب ما جاء فیمن فاتتہ الرکعتان قبل صلوة الفجر متی یقضیھما ، ص ١٦٢، نمبر ١١٥٥) اس حدیث میں ہے کہ فجر کی سنت فوت ہو گئی تو سورج طلوع ہو نے کے بعداسکی قضاء کرے ۔(٣) حدیث میں ہے کہ لیلة التعریس میں فجر کی سنت کی قضاء کی ۔ صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے ۔عن ابی ھریرة قال عرسنا مع نبی اللہ ۖ فلم نستیقظ حتی طلعت الشمس ....و قال یعقوب : ثم صلی سجدتین ثم أقیمت الصلوة فصلی الغداة ۔ ( مسلم شریف ، باب قضاء الصلوةالفائتة و استحباب تعجیل قضائھا ، ص ٢٣٨، نمبر ٣٨٠ ١٥٦١ ابو داود شریف ، باب من نام عن صلوة أو نسیھا ، ص ٧٥ ، نمبر ٤٤٣) اس حدیث میںہے کہ فجر کے فرض کو بھی سورج طلوع ہو نے کے بعدقضاء کیا اور اسکی سنت کی بھی قضاء کی
ترجمہ: ٢ اور امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کی دلیل یہ ہے کہ سنت میں اصل یہ ہے کہ قضاء نہ کی جائے ، کیونکہ قضاء واجب کے ساتھ خاص ہے ۔
تشریح : یہ طرفین کی دلیل ہے کہ سنت کی اصل یہ ہے کہ اسکی قضاء نہیں ہے ، قضاء واجب ہو نا واجب کی خصوصیت ہے ۔ اور یہ واجب نہیں اسلئے اسکی قضاء بھی نہیں ۔