(٤٩٧) فان صلی من الفجر رکعة ثم اقیمت یقطع ویدخل معہم لانہ ) ١ لو اضاف الیہا اخری تفوتہ الجماعة
لئے یہ حدیث ہے ۔ ا تیت ابن عمر علی البلاط و ھم یصلون ، فقلت الا تصلی معھم ؟ قال قد صلیت ، انی سمعت رسول اللہ ۖ یقول (( لا تصلو صلوة فی یوم مرتین ۔ ( ابو داود شریف ، باب اذا صلی فی جماعة ثم أدرک جماعة یعید ، ص ٩٣ ، نمبر ٥٧٩ نسائی شریف ، باب سقوط الصلوة عمن صلی مع الامام فی المسجد جماعة ، ص ١١٩، نمبر ٨٦١) (٣)اور مصنف ابن ابی شیبہ میںحضرت عبد اللہ ابن عمر کا قول اس طرح ہے ۔ قال عبد اللہ : لا یصلی علی أثر صلوة مثلھا ( مصنف ابن ابی شیبة ، ٤٦٣ ،من کرہ ان یصلی بعد الصلوة مثلھا ، ج ثانی ، ص ٢٢، نمبر ٥٩٩٨) اس اثر میں ہے کہ جو نماز پڑھ چکا ہو اس طرح پھر نہ پڑھو ۔ (٤)اور اکیلے میں پڑھی ہوئی نماز فرض ہو گی اور جماعت کے ساتھ پڑھی ہو ئی نماز نفل ہو گی اسکی دلیل یہ حدیث ہے ۔عن جابر بن یزید الاسودعن ابیہ أنہ صلی مع رسول اللہ ۖ و ھو غلام شاب ....فقال ما منع کما أن تصلیا معنا ؟ قالا : قد صلینا فی رحالنا ، فقال لا تفعلو ا اذ ا صلی أحدکم فی رحلہ ثم أدرک الامام ولم یصل فلیصل معہ فانھا لہ نافلة ۔ ( ابوداود شریف ، باب فیمن صلی فی منزلہ ثم أدرک الجماعة یصلی معھم ، ص ٩٥ ، نمبر ٥٧٥) اس حدیث میں ہے کہ اگر فرض ایک مرتبہ پڑھ چکا ہو دوبارہ جماعت کھڑی ہو گئی تو اسکے ساتھ دوبارہ نماز پڑھ لے اور یہ نماز نفل ہو گی ۔
ترجمہ: (٤٩٧) پس اگر فجر کی ایک رکعت پڑھی پھر اقامت کہی گئی تو نماز توڑ دے اور قوم کے ساتھ داخل ہو جائے ۔
ترجمہ: ١ اسلئے کہ اگر دوسری رکعت ملائے گا تو اسکی جماعت فوت ہو جائے گی ۔
تشریح : فجر کی نماز دو ہی رکعت ہے ، اور دوسری مجبوری یہ ہے کہ فجر کے فرض کے بعد کوئی نفل نہیں ہے ۔ اب چاہے ایک رکعت پڑھ چکا ہو اور اس رکعت کو سجدے سے مقید کر چکا ہو پھر بھی اسکو اسی وقت چھوڑ کرجماعت میں شریک ہو جائے ۔ اسی طرح اگر فجر کی دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا ہواور ابھی اسکا سجدہ کر کے دوسری رکعت کو مکمل نہ کیا ہو تو بھی اسکو چھوڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے ۔
وجہ : (١) اگر دوسری رکعت ملا یا تو اسکا فرض پورا ہو جائے گا اب وہ جماعت کے ساتھ شریک نہیںہو سکے گا ، اسلئے کہ اگر جماعت کے ساتھ بھی فرض کی نیت کی تو فرض دو مرتبہ ہو جائے گا ، اور ابھی گزرا کہ ایک فرض کو دو مرتبہ نہیں پڑھ سکتا ۔ اور اگر بعد میں نفل کی نیت سے جماعت میں شریک ہوا تو فجر کے بعد نفل نہیں ہے اسلئے بہتر یہ ہے کہ دوسری رکعت ملائے بغیر نماز توڑ کر جماعت میں شریک ہو جائے ۔ (٢) حدیث میں اسکا ثبوت ہے ۔عن ابن بحینة قال اقیمت صلاة الصبح ، فرأی رسول اللہ ۖ رجلا یصلی ، و المؤذن یقیم فقال : أتصلی الصبح أربعا ؟ (مسلم شریف ، باب کراھیة الشروع فی نافلة بعد شروع المؤذن فی اقامة الصلوة ، الخ ، ص ٢٨٨ ، نمبر ٧١١ ١٦٥٠)اس حدیث میں ہے کہ جماعت کے وقت فجر کی نماز اکیلے پڑھ رہے تھے تو آپ ۖ نے فر مایا کہ کیا فجر چار رکعت پڑھ رہے ہو ،