١ لانہ بمحل الرفض ٢ والقطع للاکمال ٣ بخلاف مااذا کان فی النقل لانہ لیس للاکمال۔
٤ ولو کان فی السنة قبل الظہر والجمعة فاقیم اوخطب یقطع علی راس الرکعتین یروی ذٰلک عن ابی یوسف
جماعت میں شریک ہو سکتا ہے۔کیونکہ یہ چھوڑ نا اسکو اعلی درجے پر پورا کر نے کے لئے ہے اسلئے یہ چھوڑنا نہیں ہے بلکہ اکمال ہے ۔
ترجمہ: ١ اسلئے کہ یہ رکعت چھوڑ نے کی جگہ میں ہے ۔
تشریح : یہ رکعت ابھی سجدہ نہ کر نے کی وجہ سے بتیرا نہیں ہو ئی ہے اسلئے اس درجے میں ہے کہ اسکو چھوڑ دیا جائے ۔ اسلئے اسکو چھوڑ کرجماعت میں شریک ہو سکتا ہے ۔
ترجمہ: ٢ اور توڑنا اعلی درجے پر پورا کر نے کے لئے ہے ۔
تشریح : یہ ایک اشکال کا جواب ہے ۔ اشکال یہ ہے کہ ، نماز کے چھوڑنے میں اسکو باطل کر نا ہے ، اور ابھی اوپر گزرا کہ عمل کو باطل کر نا اچھا نہیں ہے ۔ تو یہاں نماز کو چھوڑ کر جماعت میں شریک ہو نا کیسے جائز ہو گا ؟ اسکا جواب دیا جا رہا ہے کہ ، یہاں پہلی نماز کو اسلئے باطل کر رہے ہیں کہ اسکو کمال کے درجے میں جماعت کے ساتھ اداء کیا جائے ، تو یہ باطل کر نا نہیں ہے بلکہ اسکو اس سے اعلی درجے پر اداء کر نا ہے ، جیسے مسجد کو اسلئے شہید کر تے ہیں کہ اسکو اس سے اعلی درجے پر تعمیر کی جائے تو اس سے اور ثواب ملے گا عذاب نہیں ہو گا ، اسی طرح یہاں ہے کہ توڑنا اکمال کے لئے ہے ۔
ترجمہ: ٣ بخلاف جبکہ نفل میں ہو اسلئے کہ وہ اعلی درجے پر اداء کر نے لئے نہیں ہے ۔
تشریح : یہ حضرت امام سرخسی کو جواب ہے ، انہوں نے فرمایا تھا کہ جس طرح سنت کو دو رکعت سے پہلے نہیں چھوڑتے اسی طرح فرض کو بھی دو رکعت سے پہلے نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ اسکا جواب دے رہے ہیںکہ سنت کو درمیان میں چھوڑنے کے بعد اسکو اعلی درجے پر پورا کر نے کے لئے جماعت میں شریک نہیںہو رہا ، اسلئے سنت کو چھوڑنا اسکوباطل کر نا ہے اسلئے سنت کو دو رکعت پوری کئے بغیر نہ چھوڑے اور فرض کو درمیان میں چھوڑ کر جماعت میں شریک ہو نا اسی فرض کو اعلی درجے پر پورا کر نا ہے اسلئے فرض کو درمیان میں چھوڑ سکتا ہے ۔
ترجمہ: ٤ اور اگر ظہر اور جمعہ سے پہلے کی سنت میں مشغول ہو اور اقامت کہی گئی ، یا خطبہ شروع کیا گیا تو دو رکعتوں پر سنت چھوڑ دے ، حضرت امام ابو یوسف سے یہی روایت ہے
تشریح : یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ ظہر سے پہلے کی چار رکعت سنت اور جمعہ سے پہلے چار رکعت سنت ایک نماز ہے ، یا نفل کی طرح دو شفع ہے ، اگر ایک نماز ہے تو چاروں رکعت پڑھنے کے بعد سلام پھیر کر جماعت میں شریک ہو اور اگر دو شفع ہیں تو دو رکعت