(٤٩٢) ولا یصلی الوتر بجماعة فی غیر شہر رمضان ) ١ علیہ اجماع المسلمین۔ واﷲ اعلم بالصواب.
تراویح میں کم سے کم ایک مرتبہ قرآن کریم ختم کرے ۔ اور قوم کی سستی کی وجہ سے ایک مرتبہ ختم کر نا نہ چھوڑے ۔ البتہ اگر لوگوں پر گراں گزرتا ہو تو تشہد کے بعد جو دعائیں ہیں انکو چھوڑ دے کیوں کہ وہ اتنی اہم سنتوں میں سے نہیں ہیں ، تا ہم ایک مرتبہ قرآن ختم کر نا نہ چھوڑے ۔تشہد کے بعد درود شریف پڑھنا پھر بھی نہ چھوڑے کیونکہ درود شریف امام شافعی کے یہاں فرض ہے اسلئے ہمارے یہاں اہم سنت ہو گی اسلئے قوم کتنی ہی سست ہو تراویح میں درود شریف پڑھنا نہ چھوڑے ۔
وجہ : (١) اس حدیث میں ہے ۔عن عبد اللہ ابن عمر و ان النبی ۖ قال لہ : ((أقرأ القرآن فی شھر )) قال انی اجد قوة قال : أقرأ فی عشرین ۔( ابو داود شریف ، باب فی کم یقرأ القرآن ، ص ٢٠٨، نمبر ١٣٨٨) اس حدیث میں ہے کہ قرآن کو ایک مہینے میں ختم کر نا چاہئے ۔ اس لئے پورے رمضان میں ایک مرتبہ قرآن ختم کرے ۔ (٢) عن ابی عثمان قال : دعا عمر القراء فی رمضان فأمر اسرعھم قراء ة أن یقرأ ثلاثلین آیة و الوسط خمسا و عشرین آیة و البطی ء عشرین آیة ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب ٦٧٦ فی صلوة رمضان ، ج ثانی ، ص ١٦٤، نمبر ٧٦٧١ سن بیھقی ، باب قدر قراء تھم فی قیام شھر رمضان ، ج ثانی ، ص ٧٠٠ ، نمبر ٤٦٢٤) اس اثر میں ہے کہ سست پڑھنے والے کو بھی بیس آیتیں پڑھنے کے لئے کہتے تھے ۔اب ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھے تو ایک دن کی بیس رکعتوں میں چار سو آیتیں ہو نگیں اور تیس دنوں میں بارہ ہزار آیتیں ہو نگیں۔ قرآن کریم میں٦٢٣٦آیتیں ہیں اسلئے بارہ ہزار کو ٦٢٣٦ سے تقسیم دیں تو پورے رمضان میں دو ختم ہوئے ، اسکا مطلب یہ ہوا کہ حضرت عمر پورے رمضان میں دو ختم کر واتے تھے ، لیکن سہولت کے لئے ہم کہتے ہیں کہ کم سے کم ایک ختم کرے ۔اس سے حافظ صاحبان کا قرآن بھی یاد رہے گا ۔ (٣) ایک مرتبہ ختم کر نے کا ثبوت اس اثر میں ہے ۔کان عمر بن عبد العزیز یأمر الذین یقرأون فی رمضان فی کل رکعة بعشر آیات عشر آیات ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب ٦٧٦فی صلوة رمضان ، ج ثانی ، ص ١٦٤ ،نمبر ٧٦٧٥) اس اثر میں ہے کہ ہر رکعت میں دس دس آیتیں پڑھنے کا حکم دیا کر تے تھے تو پورے رمضان میں چھ ہزار آیتیں پڑھی جائے گی جس سے ایک قرآن کریم ختم ہو گا ۔
ترجمہ: (٤٩٢) رمضان کے مہینے کے علاوہ میں وتر جماعت کے ساتھ نہ پڑھے ۔
ترجمہ: ١ اسی پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔
وجہ : (١) وتر ایک قسم کی سنت ہے اور سنت کے بارے میں یہ ہے کہ جہاں جہاں اسکی جماعت ثابت ہے وہیں اسکی جماعت مسنون ہو گی ورنہ عام حالات میں تنہا تنہا اسکی نماز پڑھی جائے گی ، چونکہ وتر کے بارے میں صرف رمضان میں اسکی جماعت ثابت ہے اسلئے صرف رمضان میں اسکو جماعت کے ساتھ پڑھی جائے گی ، اور سال کے باقی حصے میں تنہا تنہا پڑھی جائے گی ۔ (٢) تراویح