ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
|
کے جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔میں نے عدالت کے سامنے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ میں آمریت کے خلاف ہمیشہ جدوجہد کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا میری تما م تر جدوجہد جمہوریت کی بحالی کے لیے تھی۔ اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تھی ،کیونکہ اسلام میں مارشل کے لیے کوئی گنجائش نہیں ۔اسلام تو جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار ہے ۔ میرے موقف کی تائید میں مولانا مفتی محمود مرحوم، ایس ۔ایم ظفر سیکرٹری جنرل مسلم لیگ ،میاں طفیل محمد امیر جماعت اسلامی، راجہ شیر زمان سیکرٹری جنرل تحریکِ خاکسار اور کئی اور عالم دین بطور صفائی کے گواہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے اور میرے موقف کی تائید کی تھی، یہاں تک کہ میں نے ان کوجنرل ضیاء کی فوجی حکومت کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے لیے بھی اپنا مشورہ دیا تھا ۔ (ان سب میں سے مولانامفتی محمود صاحب مرحوم کا بیان تو ایک تاریخی بیان تھا جو انشاء اللہ میں اپنی کتاب میں من وعن شائع کرائو نگا)۔ (٧ ) مندرجہ بالا وجوہات کی بنا ء پر اور اب جبکہ مارشل ختم ہو چکا ہے اور جمہوریت بحال ہو چکی ہے۔اب حکومت کے پاس مجھے جیل میں رکھنے کے لیے کوئی قانونی یا اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔ یہ ہے میرے خط کا مختصر متن جو میں نے وزیرِ اعظم کو بھیجا ہے ۔اس کی انگریزی کاپی جو کہ اصل کی نقل ہے ارسال کررہا ہوں۔اب آپ سے گزارش ہے کہ آپ نوابزادہ نصراللہ صاحب سے بات کرکے میرے خط کی کاپی پیر پگاڑو تک پہنچادیں اور اس کاطریق ِکار یہ ہو کہ کل کے اخبارکے مطابق پیر پگاڑو ٦فروری سے ٩فروری تک لاہور میں ہی ہوں گے ۔٨ فروری کو وزیرِ اعظم محمدخان جونیجو بھی مسلم لیگ کی تشکیلِ نو کے سلسلہ میں لاہور آرہے ہیں ۔پیر پگاڑو کے اپنے بیان کے مطابق ٩تاریخ کو وہ نوابزادہ نصراللہ صاحب کو کھانے پر مدعو کررہے ہیں ۔اس سے پیشتر نوابزادہ صاحب یکم فروری کو ذاتی تعلقات کی بناء پر پیر صاحب سے ملا قات کرچکے ہیں اس وقت سیاسی طورپر پیر صاحب سب سے زیادہ طاقتور سیاسی رہنما ہیں کیونکہ وزیرِ اعظم ان کے اپنے آدمی ہیں اور موجودہ حالات میں میرا کام ان ہی کی معرفت آسانی سے سرانجام پاسکتا ہے ۔آپ کے چونکہ نوابزادہ صاحب سے ذاتی تعلقات ہیں ۔اس لیے لازماً آپ کی بات پر ٹال مٹول نہیں کر سکتے ویسے تو سیاسی لیڈر عام طور پر فوراً ہاں کر دیتے ہیں لیکن اس کے بعد اس کام پر خلوصِ دل سے توجہ نہیں دیتے ۔میںاپنے تعلقات کی بنا پر آپ کومجبورکر سکتاہوں اور آپ نوابزادہ صاحب کو