ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
حضرت مولانا شمس الحق افغانی کی وفات پر مولانا سمیع الحق کے تعزیتی تاثرات وادریغا۔ کہ ابھی ہم حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ کے ماتم سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ۱۶؍اگست منگل کی شام کو عین غروب آفتاب کے ساتھ ہم نے علم و معرفت کا ایک اور آفتاب بھی سپرد خاک کر دیا۔ ایک کے غروب سے کائنات رنگ و بو پر تاریکی چھاگئی تو دوسرے کے پنہاں ہونے سے کائنات علم وفضل میں ظلمت آگئی۔ علامۂ یگانہ، محقق زمانہ، متکلم اسلام ،شمس العلوم والمعارف فیلسوف اسلام علامہ شمس الحق صاحب افغانیؒ سابق شیخ التفسیر دارالعلوم دیوبند،سابق وزیر معارف ریاست قلات بلوچستان۔ سابق صدر مدرس جامعہ اسلامیہ ڈابھیل،سابق شیخ الحدیث والتفسیر اکیڈمی علوم اسلامیہ کوئٹہ،سابق شیخ التفسیر جامعہ اسلامیہ بہاولپور،خلیفہ مجاز حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ قدس اللہ سرہ العزیز واصل بحق ہوئے جو پچھلے دو ایک سال سے صاحب فراش تھے۔ ۱۶؍اگست صبح نو بجے سانحۂ ارتحال پیش آیا، نماز جنازہ اسی دن ۶ بجے شام ان کے گائوں ترنگ زئی تحصیل چارسدہ میں حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق مد ظلہٗ نے پڑھائی اور نماز کے بعد حاضرین سے جس میں بڑی تعداد علماء و صلحاء کی تھی علامہ مرحوم کے فضائل و مناقب پر مختصر خطاب فرمایا۔ دارالعلوم حقانیہ سے بڑی تعداد میں اساتذہ و طلباء نے بھی خصوصی بسوں کا انتظام کرکے جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ غروب آفتاب کے وقت اس علامۂ دوران کی تدفین عمل میں آئی، شام کی ڈھلنے والی تاریکیوں میں لوگ واپس ہو رہے تھے تو ارباب صدق و صفا اور اصھاب علم و فضل کے اس قدر تیزی سے رخصتِ سفر باندھنے پر کتنے اصحابِ درد تھے جن کے دل ڈوبتے جا رہے تھے اور زبانِ حال سے کوئی کہہ رہا تھا۔ ؎ اٹھے جاتے ہیں اب اس بزم سے ارباب نظر گھٹے جاتے ہیں میرے دل کے بڑھانے والے مولانا کی ولادت ۷؍رمضان المبارک ۱۳۱۸ھ مطابق۵ ستمبر ۱۹۰۱ء ایک علمی خاندان میں ہوئی،نام شمس القمر رکھا گیا جو بعد میں شمس الحق سے تبدیل ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد سرحد و افغانستان کے مشاہیر علم و فضل سے علوم و فنون کی تکمیل کی، ۱۹۲۰ء میں دارالعلوم دیو بند پہنچ کر ۱۹۲۱ء میں علامۃ العصر سید انور شاہ کشمیریؒ سے دورئہ حدیث پڑھ کر سند فراغ حاصل کی۔ پھر دارالعلوم دیو بند کی طرف سے ہندوستان کے ارتدادی فتنوں کی سرکوبی میں لگ گئے اور شُدھی تحریک کی روک تھام میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ ابتداء سے ہی علمی میدان کے شہسوار تھے۔ علم وفضل کے ہتھیار سے آریہ سماج کے مشہور مناظرین کو بڑے بڑے