ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
قاری محمد طیب قاسمی ؒ کے وفات پر احقر کے تعزیتی تاثرات داغِ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی اَک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے دارالعلوم دیو بند کی محفلِ دو شین کا وہ چراغِ سحر جو پچھلے دو سال سے حوادث و انقلابات زمانہ کے جھونکوں سے بجھ بجھ کر بھی ٹمٹما رہا تھا، بالآخر شوال ۱۴۰۳ھ کے پہلے ہفتہ میں ہمیشہ کے لیے خموش ہو گیا، یعنی حکیم الاسلام ، مظہر انوارِ قاسمیہ، مسند نشین جامعہ دیو بند یہ، ترجمانِ حقائقِ اسلامیہ مولانا حافظ قاری محمد طیب صاحب قاسمی قدس اللہ سرہ العزیز نے داعی اجل کو لبیک کہا، اور دیو بندی مکتب فکر کے اس میر مجلس کے بساط لپیٹ دینے سے محفلیں اجڑ گئی ہیں اور ہر سُود وحشت اور ویرانگی کا سا عالم ہے۔ اب اُس دور کا بالکل خاتمہ ہو گیا ہے جو شیخ الہند مولانا محمود الحسن، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، علامۃ العصر مولانا انور شاہ کشمیری، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی اور علامہ شبیر احمد عثمانی (رحمہم اللہ) کا یاد گار تھا۔ ان کی ذات ان اکابر کی نہ صرف بقیۃ السلف نشانی تھی بلکہ ان کی ذات میں ان تمام اکابر و اساطین دیو بند کی نسبتیں جمع تھیں اور وہ زندگی بھر اپنی ذاتی، حسبی اور نسبی گوناگوں خصائص وکمالات کے وجہ سے ان تمام اکابر کے محبوب بن چکے تھے۔ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ شاید آپ دارالعلوم دیو بند چھوڑ کر پاکستان سکونت اختیار کر لیتے ادھر اکابر دیو بند باصرار آپ کو دوبارہ دیو بند کھینچ لائے تو استقبالیہ تقریب میں حضر ت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے دیدئہ پُرنم اور گلو گیر آواز میں ان کو مخاطب کر کے فرمایا : … اے تماشا گاہِ عالم روئے تو تو کجا بہر تماشا می روی بلاشبہ ان کی ذات محبوبیت میں تماشا گاہ عالم تھی، وہ اس گلشن علم و معرفت کے مالی اور شجرئہ طوبیٰ کے امین تھے جس کے لیے حجۃ الاسلام ولی اللہ دہلویؒ، حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ اور شہدائے بالاکوٹ نے زمین ہموار کی ، جس کی داغ بیل حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور فقیہ الاسلام مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے ڈالی اور جس کی آبیاری میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ، حکیم الامۃ مولانا اشرف علی تھانویؒ، علامۃ العصر انور شاہ کشمیریؒ اور مجاہد اعظم مولانا سید حسین احمد مدنیؒ جیسے عمائدین امت نے اپنی زندگی تج دی۔ یہ امانت جب آپ کے ہاتھوں میں آئی تو پون صدری کے طویل اور صبر آزما شبانہ روز جدوجہد، خداداد اہلیت و صلاحیت، اخلاص و دیانت اور والہانہ جہد و عمل کے ساتھ آپ نے اس مدرسہ علم کو ایک ایسے جامعہ میں تبدیل کر دیا جس کے انوار و تجلیات سے ایک عالم جگمگا اٹھا اور وہ اس امانت سے الگ ہو کرجب دنیا سے