ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
رفاہِ عامہ کے کاموں میں طلبہ کی شرکت خدمت ِ خلق اور رفاہِ عامہ کے کاموں میں شرکت دینِ اسلام کا وہ حصہ ہے جس کی بے شمار فضائل حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں ۔ رفاہِ عامہ کے کاموں میں شرکت کیلئے طلبہ کو ترغیب دینے ،اسکے بہتر طریقے اور اس کی مشق اور تربیت ایک ہم نصابی سرگرمی کی صورت میں دی جاسکتی ہے ۔ معاشرتی طور پر بعض اوقات ایسے ہنگامی حالات پیدا ہوتے ہیں جن میں آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے۔ مدارس کے طلبہ تربیت لیتے وقت ایسے نامساعد حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی اور راہنمائی لے سکتے ہیں۔ ایسی ہنگامی صورت حال پیدا ہو، یا معاشرتی طور پر کوئی رفاہی کام ہو یا خدمت خلق کا کوئی مہم سرانجام دینا ہو تو استاد اس سلسلے میں اصول و ہدایات فراہم کریں، حکمت عملی وضع کرنے کا طریقہ کا ر بتائیں ۔ نیز ایسے کاموں میں شرکت کیلئے ترغیب بھی دیں اور طلبہ ہم نصابی سرگرمیوں کی حیثیت سے اپنے اوقات کے حساب سے گا ہے گاہے ان کاموں میں حصہ بھی ڈالیں ۔اسی طرح اجر و ثواب کے علاوہ معاشرے میں احترام کا مقام بھی ملے گا اور کبھی بھی کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تجربات بھی حاصل ہوں گے۔تفریحی اور تعلیمی دورے دینی مدارس سمیت ملک کے بیشتر عصری تعلیمی اداروں میں دو روایتیں پائی جاتی ہے۔ ایک تفریحی دورے ،کہ طلبہ ایک جماعت کی شکل میں کسی استاد کے زیر نگرانی چھٹیوں کے دنوں میں سیرو تفریح کیلئے جاتے ہیں۔ اس روایت کی زیادہ تر بنیاد مالی وسائل پر ہوتی ہے، چونکہ عام طور پرعصری تعلیمی اداروں کے پاس مالی وسائل زیادہ ہوتے ہیں اور مدارس بالعموم مالی وسائل کے کمی سے دوچار ہوتے ہیں تو تفریحی دوروں کی روایت مدارس کے بہ نسبت عصری اداروں میں زیادہ ہے۔ دوسری روایت تعلیمی یا تربیتی دوروں کی ہوتی ہے۔ یہ روایت اگرچہ عصری اداروں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن مدارس میں اسکی کثرت ہے۔ مدرسوں میں اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ طلبہ کو جب اپنے علاقے یا اپنے علاقے سے تھوڑے فاصلے پرکسی دوسرے مدرسے میں کسی نامور عالم یا شیخ کی آمد کی اطلاع ملتی ہے تو خالص اپنی ذاتی شوق و ذوق کے بنیاد پر دو دو چار چار طلبہ مل کر وہاں جانے کا اہتمام کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر ہر طالب علم اپنی تمام تر مصروفیات چھوڑ کر اس نامور عالم یا شیخ کی محفل سے استفادے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ سردست اگر دیکھا جائے تو یہ ایک اچھی روایت ہے مگر مزید بہتری کے خاطر اگر احتیاطی تدابیر اور ان دوروں کے اصلی مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے مدارس کے مہتممین ، نگران حضرات اور اساتذہ ملکر ان دوروں کو ادارہ جاتی شکل دیں تو شاید اس صورت میں شدتِ احتیاط کے بنا پر مقاصد و فوائد کا حصول یقینی ہوگا۔ ادارہ جاتی تشکیل