ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
اجتماعات میں عبرتناک شکست دی۔ اس کامیابی پر ان کے اکابر اساتذہ نے دلی مسرتوں کا اظہار کیا اور دل کھول کر دعائیں دیں۔ اس کے بعد برصغیر کے تقریباً ایک درجن علمی اداروں، مدارس اور جامعات میں اسلامی علوم وفنون کی تدریس میں منہمک رہے جن میں سرفہرست دارالعلوم دیو بند ہے جہاں آپ نے تفسیر کی اعلیٰ کتابیں پڑھائیں۔ ۱۹۳۹ء میں آپ کو ریاست ہائے متحدہ بلوچستان قلات کی وزارتِ معارف کی پیشکش کی گئی اور اکابر کے مشورہ پر قضاوتعلیم کی وزارت کا قلمدان سنبھالا۔پورے گیارہ سال آپ اس منصب پر فائز رہے۔ اس دور کے نظام عدل و قضا اور عدالتی قوانین سے متعلق آپ کی وابستگی کے نتیجہ میں دنیائے علم کو ’’معین القضاۃ و المفتیین‘‘ کی شکل میں قضاء و افتاء سے متعلق فقہ اسلامی کے چیدہ اصول و قواعد کا مجموعہ ملا جس نے اہل علم سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ اسلام کے ضابطۂ دیوانی و فوجداری پر بھی آپ نے گرانما یہ کام کیا۔ انگریز کے چھوڑے ہوئے عدالتی نظام کے سائے سمٹنے کی بجائے پھیلتے چلے گئے اور ۱۹۵۵ء میں ون یونٹ کے قیام کے ساتھ ان کے زیر نظم علاقے پر بھی اس نظام کے منحوس سائے چھا گئے اور شرعی قوانین کی بالادستی قائم نہ رہ سکی تو آپ نے استعفاء دے دیا کہ کسی شرعی عدالت پر رائج الوقت عدالتوں کی برتری کو شریعت کے وقار اور شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جب دیو بند کے راستے مسدود ہو گئے اور بانی دارالعلوم حقانیہ حضرۃ شیخ الحدیث مولانا عبدالحق مد ظلہٗ کو بامرِ مجبوری گھر ٹھہرنا پڑا تو حضرت مرحوم نے اپنے ریاستی فرائض قضاء و تعلیم میں شریک کرانے کے لئے مولانا موصوف کو باصرار بلوچستان بلانا چاہا، بات چل رہی تھی، اُدھر حق تعالیٰ نے مولانا مد ظلہٗ سے دارالعلوم حقانیہ کی شکل میں ایک عظیم کام لینا تھا شاید اس لیے یہ دعوت قبول نہ ہو سکی۔ ناچیز کے علاوہ بہت سے حضرات کو یہ حسرت رہی کہ کاش علامہ مرحوم بھی (بلوچستان کی مصروفیت کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو) درس و تدریس کا روائتی سلسلہ اپنے مادر علمی دارالعلوم دیو بند اور اس کے بعد ایسے ہی اہم دینی مدارس میں جاری رکھے ہوتے اور ریاستوں اور عصری جامعات کے اعلیٰ سے اعلیٰ مناصب کے دینی خدمات کی بجائے کسی مدرسہ کے دارالحدیث یا خانقاہ کی مسندِ ارشاد ہی پر متمکن رہتے تو ان کے خداداد افادہ کا حلقہ اور فیض و استفادہ کا دائرہ بہت ہمہ گیر اور عالمگیر ہوتا اور وہ تلامذہ اور مستفیدین کے اعتبار سے اپنے وقت کے علامہ کشمیری اور علامہ عثمانی بن کر دنیا سے اُٹھتے کہ ان کی عبقری شخصیت اور علوم کی جامعیت کے شایان شان یہی تھا۔ بلوچستان اور بہاولپور کے دور اُفتادہ اور لگی بندھی ذمہ داریوں اور محدود فرائض نے ان کے علم