ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
خصوصی تحریر برائے الحق مولانا محمد رفیق شِنواری * دینی مدارس میں ’’ہم نصابی سرگرمیوں ‘‘ کی تشکیل اور اس کے مواقع اسلامی نظام تعلیم کے بالعموم اور دینی مدارس کی تعلیمی نظام تشکیل دینے کے لیے اساسیات، اصول واقواعد اور حدود بعینہ وہی ہونی چاہیے جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کی تھی اور یقینا فلاح و نجاح اسی میں ہے ۔کوئی بھی نظام تعلیم اگر اس معیار پرپورا اترے تو اسکے موثر اور مفید ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے کیونکہ وہ معیار اور اصول ربانی تھے اور رب بھی وہ جو ماضی کو بھولا نہیں، حال سے بے خبر نہیں، مستقبل سارا کا سارا اس کے سامنے واہ ہے ، انسان کی تمام ضرورتوں اور تقاضوں کے خالق ہے انسانوں کو انہیں پورا کرنے کی توفیق بخشنے میں ستر ماں سے زیادہ ہمدرد اور پیار والے ہیں۔ وہ تعلیم و تربیت کیلئے جن اصول و قواعد اور معیار کا تعین کریں گے اس کی افادیت اور تاثیر پر کیا پھر بھی گفتگو اور مباحثوں کی ضرورت باقی رہے گی؟ مسلمانوں کو عصری اور مذہبی سبھی امور کی تعلیم کیلئے اس معیار کو اپنانا چاہیے۔ اگر ضرورت ہے تو وہ صرف اس کو سمجھنے کی ہے اوراس کا تجزیہ کرکے جامع قواعد مرتب کرنے کی ہے۔ تاریخ اور سیرت پر نظر رکھنے والے اہلِ علم جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت کا ایک حصہ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی مشتمل ہے۔ عہد نبوت میں نیزہ بازی، دوڑمیں مسابقت، شعرگوئی اور ہنسی مزاج ثابت ہیں جن کی تفصیلات حدیث اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ لہٰذا مدارس میں جو بعض ہم نصابی سرگرمیاں تشکیل دی جاتی ہیں وہ نبوی نظامِ سے ہم آہنگ ہی ہے۔ ان سرگرمیوں کی تشکیل میں کن قواعد کا خیال رکھنا ضروری ہے اس پر راقم شائع ہونے والی کتاب تدریب المعلمین میں کچھ گزارشات عرض کر چکا ہے۔ البتہ یہاں چند ہم نصابی سرگرمیوں کی تشکیل کے کچھ مواقع کا ذکر کیا جاتا ہے ، جن میں استاد کی شمولیت بھی مفید بلکہ ضروری ہے۔ ________________________ *ایل ایل ایم سکالر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد