ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
حضرت قاری صاحبؒ ایک پاکیزہ شخصیت ، جامع العلوم اور بہترین کمالات سے متصف تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے خاندان میں اور ان کے دیگر نائبین کے خاندان میں حضرت قاری صاحب ؒ والے تمام اوصاف و کمالات پیدا فرما دے اور خدا تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے اس خلا کو پورا فرما دے۔ آج شہر شہر بستی بستی، قریہ قریہ جو آپ کو یہ دینی علوم کے مدارس و مراکز نظر آتے ہیں اور ہر گائوں اور ہر بستی میں جو آپ کو دارالعلوم دیو بند کا فاضل، اکابر اساتذہ کا تلمیذ یا تلمیذ التلمیذ نظر آتا ہے یہ سب دارالعلوم دیو بند کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے اور یہ سب دارالعلوم دیو بند ہی کی برکات ہیں۔ ایشیا بھر میں پھیلے ہوئے مدارس، ان کے اساتذہ و منتظمین کا تعلق بغیر واسطہ کے یا بلاواسطہ دارالعلوم دیو بند سے وابستہ ہے۔دارالعلوم حقانیہ اور اسکے بانی سے تعلق: حضرت قاری صاحب مرحوم دارالعلوم حقانیہ سے حد سے زیادہ شفقت اور حد سے زیادہ محبت تھی جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو دارالعلوم حقانیہ ضرور تشریف لاتے جب ہم سالانہ جلسہ دستار بندی کرتے(جو اب کافی عرصہ سے سالانہ اجتماع اور دستار بندی وغیرہ کا نظام متروک ہو چکا ہے، بفضل اللہ حلقہ کی وسعت اور فضلاء کی کثرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ جس کی وجہ سے جلسہ کا کنٹرول ایک بڑی سطح کے منصوبہ اور بڑے پیمانہ کے انتظام کے بغیر انجام کو نہیں پہنچ سکتا) تب بھی حضرتؒ تشریف لاتے، ایک مرتبہ اس سامنے والی گیلری (دارالحدیث کے سامنے برآمدے کے اوپر والا بالاخانہ یا گیلری جو کافی عرصہ تک حضرت مولانا محمد علی صاحب ؒ کی قیام گاہ رہا ہے) میں بھی قیام فرمایا اور غالباً ایسے ہی ایک موقعہ پر جب آپ نے دارالعلوم حقانیہ اور اس کے مختلف شعبوں اور طلبہ کی قیام گاہوں کے مختلف احاطوں کا معائنہ کیا تو حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ نے ارشاد فرمایا۔’’مجھے دارالعلوم حقانیہ دارالعلوم دیو بند سے جدا نظر نہیں آتا،بلکہ دارالعلوم حقانیہ نے دارالعلوم دیو بند کو اپنے ضمن میں لے رکھا ہے، سارے پاکستان میں دارالعلوم دیو بند کے نمونہ اور نقش قدم پر دارالعلوم حقانیہ گامزن ہے اور یہ دیو بند ثانی بن چکا ہے‘‘۔ اور ایک مرتبہ تو یہاں تک فرمایا کہ :’’میں دارالعلوم حقانیہ آکر یوں محسوس کرتا ہوں جیسے دارالعلوم دیو بند آگیا ہوں اور گویا اپنے گھر میں موجود ہوں‘‘۔ یہ تاثرات دارالعلوم کی کتاب الآراء میں بھی قلمبند فرمائے ہیں۔ بہرحال یہاں آکر حد درجہ خوشی اور محبت کا اظہار فرماتے اور جو نئے مسائل پیش آتے اس میں بھی دارالعلوم حقانیہ کی رائے کو شامل فرما لیتے۔ میں عرض یہ کر رہا تھا کہ حضرتؒ کو دارالعلوم حقانیہ خاص کر مجھ ناچیز پر حد درجہ شفقت تھی۔ دارالعلوم دیو بند میں میں نے جو زندگی کے لمحات گذارے ہیںخاص کر تدریس کا زمانہ جو تقریباً ساڑے