ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
وجہ سے بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ 786 میں الگ الگ ہندسوں کو جمع کرکے 21 بنتا ہے۔ بدھ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا کوڈ لفظ ہے، جس کے اندر پیغام ہے کہ 21ویں صدی میں میانمار کو مسلمانوں کا اکثریتی ملک بنانا ہے۔ چنانچہ اب 786 کا ہندسہ میانمار میں اس کی اکثریتی آبادی کے لئے ایک ڈرانا خواب بن گیا ہے۔ بدھ مت کے پیروکاروں نے اس کے مقابلے میں 969 کا ہندسہ عام کردیا، جو ان کے مطابق گوتم بدھ کے بتائے ہوئے اصولِ حیات کی تعداد اور ان کے ساتھ مذہبی وابستگی کا نمائندہ ہندسہ ہے۔روہنگیا مسلمانوں کی شہریت سے محرومی روہنگیامسلمانوں کا اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ حکومت ان کو فرزندان وطن (Sons of the the Soil) نہیں سمجھتی۔ یہ مسئلہ اس وقت زیادہ گہرا ہوگیا ہے جب آئین میں ان کو شہریت کے حق سے محروم کردیا گیا۔ چنانچہ حکومت ان کو این،آر،سی (National Registration Card) دینے سے انکاری ہے اور اس کی بجائے ان کو ٹی. آر. سی (Temporary Registration Card) لینے پر مجبور کررہی ہے۔ این، آر،سی سے محرومی کا مطلب یہ ہے کہ روہنگیاکو مکمل شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ علاوہ ازیں اس کے نتیجے میں یہ جائیداد اور ووٹ کے حق سے بھی محروم ہوں گے۔ حکومت ان سے کہتی ہے کہ وہ روہنگیاکے متبادل کے طورپر اپنے آپ کو چٹاگانگ کے بنگالیوں کے طورپر متعارف کرائیں۔بدھسٹ دہشت گرد سے موتک دیراتو سے ملاقات بلاشبہ روہنگیاان سرکاری پابندیوں کی وجہ سے اپنے وجود کے حوالے سے ایک مشکل دوراہے پر کھڑے ہیں۔ موجودہ مسلم ، بدھ کشمکش سے بدھ مت کے پیروکاروں میں ان کے انتہا پسند مذہبی قائد موتک دیراتو کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ دیراتو کو بین الاقوامی جریدہ ٹائمز نے جولائی 2013 کے شمارہ میں اپنے ایک مضمون میں برما کے دہشتگرد کے نام سے موسوم کیا تھا (The Face of Buddhist Terror by Hannah Beech) اور سرورق پر اس کی تصویر شائع کی تھی۔ دیراتو کا مرکز میانمار کے ایک بڑے شہر منڈالے میں ہے، جہاں وہ بدھ مت کے ایک دینی ادارے میں استاد ہے۔ اس وقت اس کے ادارے میں 3000 سے زیادہ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ ان کا ادارہ دماتیریا سجاسیہا دما سیریا کے نام سے ڈگری جاری کرتا ہے جسے سرکاری طورپر مذہبی علوم میں ایم. اے کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اکتوبر 2013 میں مونک ویراتو کیساتھ ان کے مذہبی ادارے کے دفتر میں ہمارے ایک بین الاقوامی وفد کی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس وفد میں انسٹیٹیوٹ فار گلوبل اینگیجمنٹ (واشنگٹن)کے سربراہ ڈاکٹر کریس سائیبل کے علاوہ