ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
صفات سے مالا مال ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ایسے بدھ مونک موجود ہیں جو ویراتو سے اتفاق نہیں کرتے اور میانمار کو ایک پرامن کثیرالنسلی اور کثیر المذہبی ملک کے طورپر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی قیادت ڈاکٹر آشین سیتاگو سیاگو کے ہاتھوں میں ہے۔ ڈاکٹر آشین کے پیروکاروں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے اور ان کے تعلیمی ادارے ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ روہنگیا کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر آشین سیتاگو سیاگو کے ساتھ بہتر تعلقات کار قائم کریں اور ان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں۔ میانمار کے صدر مقام رنگون میں ایک غیرروہنگیا مسلمان یو یے یی لوین (U A Ye lwin) مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان بہتر تعلقات کار کے لئے بہت مفید کام کر رہے ہیں۔ وہ بین المذاہب مکالمے کے پلیٹ فارم سے خاصے فعال ہیں۔ ان کی کوششوں کی حمایت کی جانی چاہئے۔ رنگون کے بدھ حلقوں اور پالیسی سازوں میں ان کو بہت احترام حاصل ہے۔ میانمار کا پریشرگروپ میانمار میں 88 Generation Group ایک بہت مضبوط گروپ ہے۔ یہ ان سیاسی کارکنوں پر مشتمل ہے جنہوں نے 1988 میں فوجی حکمرانوں کے خلاف تحریک چلائی اور بے انتہا مظالم کا نشانہ بنے۔ اس گروپ کے قائدین کی جوانیاں میانمار میں قانون کی حکمرانی کی بحالی کی تحریک میں صرف ہوئیں اور وہ اب بھی ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ روہنگیا لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس گروپ کا حصہ بنیں اور انکی جدوجہد میں تعاون کرکے اپنے لئے مقام (space) پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ میانمار میں اکثریتی گروپ(برمن)کے رویے سے غیرمطمئن گروپوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ان میں مونگ، کوکن، شان، چن، کائن اور کیچن خاص طورپر نمایاں ہیں۔ ان کو شکایت ہے کہ برمن اکثریتی گروپ دوسرے گروپوں کی ثقافت، تاریخ اور سیاسی جدوجہد کو نظر انداز کررہا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں صرف برمن ہیروز کا ذکر کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے نسلی گروہوں کو نمائندگی نہیں دی جاتی۔ ان گروپوں میں مسلمان اور مسیحی شامل ہیں۔ روہنگیاکو چاہیے کہ وہ ان گروپوں کے ساتھ قریبی تعلقات کار قائم کریں اور اپنے لئے سیاسی و معاشرتی ہمدردی کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کریں۔میانمار اورفوج کی بالادستی میانمار کے سیاسی نظام میں فوج کو فیصلہ کن بالادستی حاصل ہے۔ فوج فی الحال اندرونی اور بیرونی دبا ؤکے بارے میں بڑی حدتک غیر حساس ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ (بقیہ صفحہ۵۹ پر )