ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
شریعت بل او رمیاں صاحب کا کردار مگر جب یہ پاس کردہ بل اس وقت کے قومی اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کیا گیاتو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اس بل کو ایک غیر اسلامی شق کے ساتھ مشروط کر دیا کہ’’بل اس شرط پر نافذ ہو گا کہ ملک کا موجودہ سیاسی، معاشی اور عدالتی نظام متاثر نہ ہو‘‘۔ اس طرح بڑی ڈھٹائی سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالادستی کا راستہ روکا گیا،اس اقدام سے میاں صاحب کے دین و شریعت کے معاملے میں بے حسی بلکہ منافقانہ رویہ ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے، ان کا بس چلے تو وہ دستور کی دیگر اہم اسلامی ترامیم پر بھی چھری پھیر دیں گے ۔ ان اسلامی دفعات خصوصاً توہین رسالت ایکٹ ،امتناع قادیانیت آرڈیننس پر مغربی اقوام یہودی اور قادیانی ملک کی سیکولر و لبرل لابیاں سیخ پا ہوکر مسلسل ان کے خاتمے کی جدوجہد کررہی ہیں۔اس معاملے میں ان کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ سابق صدر امریکہ باراک اوبامہ نے اپنے خصوصی مسلمان ایلچی ومشیر مسٹر رشاد حسین کی قیادت میں ایک وفد بھیجا جو مجھ سے بھی ملا۔ دو گھنٹے کی مجلس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسٹر اوبامہ ان دو دفعات (امتناع قادیانیت اور توہین رسالت ) کو آئین سے ختم کرانے کے خواہشمند ہیں۔دفعہ باسٹھ تریسٹھ آئین کے دفعہ 62,63جسکی وجہ سے میاں صاحب برطرف کیے گئے آٹھویں ترمیم کا حصہ ہے۔مجھے بحیثیت مسلمان اور پاکستانی اس حقیقت کے اظہار پر فخر ہے کہ ان اسلامی دفعات اور ترمیمات کرانے میں جنرل ضیاء الحق کی وفاقی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں میری طویل جدوجہد اور صدر ضیاء الحق کو راضی کر کے اسے آٹھویں ترمیم کا حصہ بنانے میں میرا اہم اور کلیدی کردار رہا ہے۔میں خود ان تمام اسلامی دفعات کی جدوجہد کا حصہ رہا بلکہ 1973ء کے دستور کی منظوری سے لیکر اب تک بیس پچیس سالوں کی محنتیں شامل ہیں۔ میرے خیال میں میاں نواز شریف یا ان کے ہمنوا صرف دفعہ 62,63ختم کرنے کے درپے نہیں بلکہ وہ آٹھویں ترمیم میں شامل تمام دفعات کو ختم کرنے کی شروعات کر رہے ہیں۔عمارت کی بنیادوں کی ایک اینٹ سرکا دینے کے بعد یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ اسلامی تشخص کے علاوہ ملک کے وفاقی استحکام ،علاقائی لسانی اور علیحدہ پسند قوتوں کو مذموم عزائم کی تکمیل کا دروازہ کھل جائے گا۔ کرپٹ حکمران اور عناصر احتساب کے راستے سپریم کورٹ وغیرہ بند کرکے من مانی کرنے میں آزاد ہوجائیں گے ۔اہم اسلامی دفعات کا تعارف وہ اہم دفعات کونسے ہیں جن کو میاں صاحب کے نام نہاد ’’انقلاب‘‘ سے خطرہ ہے۔ بطور مثال