ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
کیااورنہ ہی اس کے اداکرنے میں لااُبالی پن کامظاہرہ کیایعنی پورے حزم اوراحتیاط کوملحوظ رکھا۔اوران حضرات نے ایساکیاتھاکہ نہیں توان شخصیات پرنبوی دعاکااثردیکھاجاسکتاہے کہ حضرت شیخ الحدیث مولانازکریارحمہ اللہ کوزندگی میں وہ مقبولیت ملی کہ آپ کی کتاب فضائل اعمال آپ کی زندگی ہی میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب تھی حالانکہ مشاہدہ یہ ہے کہ زندہ لوگوں کی تصنیف کوبہت کم ہی توجہ دی جاتی ہے کہ وہاں پرمعاصرت کاعنصرکارفرماہوتاہے منافرت میں اورحضرت شیخ الحدیث مولاناعبدالحق صاحب رحمہ اللہ کووہ مقبولیت ملی کہ آپ کی زندگی میں آپ کامدرسہ دارالعلوم حقانیہ پاکستان کادیوبندبنااوریہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمدطیب رحمہ اللہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبندنے خودیہی فرمایایعنی اس کے دیوبندہونے کی تصدیق دیوبندہی نے کی۔’’وشہدشاہدمن اہلہا‘‘ حضرت شیخ الاسلام والمسلمین مولاناسیدحسین احمدمدنی رحمہ اللہ کے تلامیذاورخوشۂ چینوں میں جس شخصیت کوشیخ الحدیث کے لقب سے پہچاناجانے لگاوہ حضرت شیخ الحدیث صاحب تھے اوریہ کہ آپ کوہرمکتب فکراہل حدیث،بریلوی اوراہل تشیع میں حتی کہ سیکولرطبقے میں بھی احترام سے دیکھاگیا۔اورعامۃ الناس توآپ کے ایک جھلک دیکھنے سے ہی گرویدہ ہوجاتے۔عوامی مقبولیت اورانتخابات میں کامیابی : اوریہی وجہ ہے کہ 1970ء میں جب پہلے عام انتخابات ہوئے توآپ کے مقابلہ میں اس وقت کے صوبہ سرحدکے وسطی علاقوں پشاور، مردان، چارسدہ، نوشہرہ اورصوابی میں نیشنل عوامی پارٹی کابہت زور تھااوران کے مرکزی لیڈرمشہورقوم پرست اورپشتوزبان کے شاعراجمل خٹک آپ سے کافی مارجن کے ساتھ شکست کھاگئے حالانکہ آپ خودتوبہت ہی کم کہیں انتخابی جلسوں میں گئے اورجاتے بھی تواپنے مزاج کے مطابق دینی اصلاحی بیان فرماتے زیادہ ترطلبہ اورعلماء ہی نے آپ کی انتخابی مہم چلائی۔ ہم خودتواس وقت دوسرے جگہ حصول علم میں لگے تھے لیکن جوانی تھی توبڑے جوش اورجذبے سے اگرایک جانب حضرت شیخ القرآن مولاناعبدالہادی رحمہ اللہ کے انتخابی مہم میں سرگرم تھے توساتھ ساتھ مولاناحمداللہ صاحب اورمولاناعبدالحق صاحب کے حلقوں میں بھی جاکرمہم چلاتے۔ ایک تواس لئے کہ پہلاالیکشن تھادوسرایہ کہ یہ علماء اپنے علم وتقویٰ کے حوالے سے معروف ومشہورتھے تیسرایہ کہ اس وقت تویہ معلوم نہیں تھاکہ پارلیمنٹ میں اکثریت پربات ہوتی ہے ۔ہم ایک جانب تویہ سمجھ رہے تھے کہ پورے پاکستان سے علماء کی اکثریت ہی کامیاب ہوگی اوراگرنہ بھی ہوتویہ لوگ گئے اوراسلام آہی گیااوریہ بھی نہ ہوتوان حضرات کااسمبلی میں وجودہی غنیمت ہے جوبعدمیں ثابت بھی ہوا۔