ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
پر خطاب بھی کیا اوردستاربندی میں بھی شریک رہے۔میری تقریر کا کچھ حصہ اگلے روز مشرق اخبار میں شائع بھی ہوئی اس موقع پر مولانا صبغۃ اللہ مجددی جو کہ افغان جہاد کے ایک زعیم ہیں،سے گفتگو بھی ہوئی انہوں نے کسی وقت دارالعلوم حاضری کی خواہش بھی ظاہر کی۔جزائر مالدیپ کے مشیرمذہبی امور کی آمد ۳؍جون: سربراہ مالدیپ کے مشیر مذہبی امور شیخ الاسلام محمد جمیل صاحب زیدی مطالعاتی وتعارفی دورہ میں دارالعلوم حقانیہ تشریف لائے ، دفتراہتمام میں حضرت شیخ الحدیث مدظلہ سے ملاقات کی اوراہم امور پر تبادلہ خیال کیا، جہاں حضرت شیخ الحدیث نے انہیں ضیافت بھی دی ، اگرچہ دارالعلوم میں عام تعطیلات تھیں تاہم حضرت شیخ الحدیث کی ملاقات اوردارالعلوم کے مختلف شعبہ جات دیکھنے سے بے حد خوش ہوئے ،اورکتاب الاراء میں اپنی گراں قدررائے بھی تحریر فرمائی۔تعزیتی اجتماع میں شیخ الحدیث کا قاری طیب قاسمی کو خراج عقیدت حضرت قاری محمد طیب مرحوم کے سانحہ ارتحال کے موقعہ پر حضرت مولانا عبدالحق ؒ کا تعزیتی اجتماع سے خطاب کا اقتباس: محترم بھائیو! اکابر دیو بند کا ذکر بھی اسی مناسبت سے چل پڑا ہے کہ ابھی پچھلے دنوں دارالعلوم دیو بند کے مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کا انتقال ہو گیا ہے۔ حضرت قاری صاحب ؒ ایک پاکباز اور باکردار انسان تھے۔ حضرت مولانا قاسم العلوم ؒ کے علوم(جبکہ ان کی ہر کتاب علوم و معرفت کی ایک بحرذخار ہے اور انکی تصنیفات جو علم الکلام ، علم الحدیث پر لکھی گئی ہیں، کو سمجھ لینا بھی کوئی آسان بات نہیں ہے) کے ترجمان تھے۔ الولد سر لا بیہ کا مظہر تھے۔حضرت قاری صاحب ؒ اکابرین دیو بند کے علوم بالخصوص علوم قاسمیہؒ، علومِ شیخ الہندؒ اور علومِ تھانویؒ کا ایک عظیم خزانہ، جامع ماہر اور شارح تھے، تحریر و تقریر میں ان کو زبردست ملکہ حاصل تھا اور سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ دارالعلوم دیو بند کو جو خدا تعالیٰ نے علمی لحاظ سے ، طلباء کے لحاظ سے اساتذہ اور علماء کے لحاظ سے، اقتصادیات اور تعمیرات کے لحاظ سے اور ہر لحاظ سے جو خوبیاں عطا فرمائی ہیں اور ترقیات سے نوازا ہے، یہ سب کچھ حضرت قاری صاحبؒ کے دور اہتمام اور ان کے زیر نگرانی انجام کو پہنچا ہے۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کے زمانہ میں حضرت العلام مولانا انور شاہ کشمیریؒ دارالعلوم دیو بند کے صدر مدرس رہ چکے ہیں، پھر ان کے بعد شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین مدنی ؒ حضرت قاری صاحبؒ ہی کے زمانہ اہتمام میں تدریس کرتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دارالعلوم دیو بند نے اس زمانہ میں جو عروج اور ترقی حاصل کی ہے، یہ تاج اور اس کا سہرا حضرت قاری صاحب مرحوم کی مساعی جمیلہ کے سر ہے اور یہ ان ہی کے مخلصانہ شبانہ روز مساعی کا ثمرہ ہے۔ بہر تقدیر