ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
خصوصی مضمون شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ انوار الحق صاحب ضبط و ترتیب: مولانا حافظ سلمان الحق حقانیعلم و عمل کا عظیم پیکرشیخ الحدیث حضرت العلامہ مولانا سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ الحمد للہ وکفیٰ والصلوٰۃ والسلام علی خیر الخلائق والانبیاء محمدن المصطفی المجتبیٰ الی یوم الجزاء امابعد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ O وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلاَلِ وَالْاِِکْرَامِ(الرحمٰن:۲۶۔۲۷) کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ اس دنیامیں جو بھی بستا ہے اس کو دنیا سے فنا ہونا ہے بقاء صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے ،جس سے معلوم ہواکہ موت کا آنا ایک اٹل حقیقت ہے اوریہ کوئی نئی چیز نہیں ہے کیونکہ موت ہر ایک کو آنی ہے موت کے قانون سے نہ کوئی نبی مستثنیٰ ہے اورنہ کوئی ولی جو بھی اس دنیامیں آیا وہ اپنا وقت مقررہ اور دانا پانی پورا کرکے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، حدیث نبوی ہےان النفس لن تموت حتی تستکمل اجلھا وتستوعب رزقھا دنیا میں آنا درحقیقت دنیا سے جانے کی تکمیل ہوتی ہے حضرات انبیاء کرام اور خصوصاً سردار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا فانی کو خیر آباد کہہ کر رخصت ہو جانا مسلمانوں کے اس عقیدہ موت کو اور بھی پختہ کردیتا ہے کیونکہ اگر دنیا میں کسی کو ہمیشہ کیلئے رہنا ہوتا تو حضرت انبیاء کرام رہتے اور خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رہتے … دریں دنیا کسے پائندہ بودے ابو القاسم محمدؐ زندہ بودے اور اسی طرح ایک عربی شاعر نے فرمایا …لو کان فی الدنیا بقاء لساکن لکان رسول اللہ فیھا مخلداً موت العالِم موت العالُم اگر دنیا میں کسی آنے والے کو ہمیشہ رہنا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ہمیشہ رہتے ۔ اللہ تعالیٰ جس نفس کیلئے جتنا وقت مقرر کیا ہے وہ اپنا وقت مقررہ مدت گزار کر دنیا اور اہل دنیا کو خیرباد کہہ کر دارالبقاء کی طرف رخلت کردیتا ہے مگر بعض انسانوں کا اس دار فانی سے رحلت کرکے جانا ایسی خلا پیدا کردیتا ہے جو کبھی پُر نہیں ہوتا اس کے جانے سے دنیا ہل جاتی ہے بقیۃ السلف ، اکابر شیخ المشائخ ،استاد العلماء