ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
خصوصی تحریر: قاضی فضل اللہ حقانی * بروفات شیخ الحدیثؒ ۷ ستمبر کی مناسبت سےحضرت شیخ الحدیث مولاناعبدالحق صاحبؒ علم و عمل کا پیکر ،تواضع وانکساری کا مرقع ہندوستان کے حوالے سے جب کہاجاتاہے کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب توفوراً ذہن میں شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاصاحب رحمہ اللہ کی طرف چلاجاتاہے اورپاکستان میں جہاں بھی حضرت شیخ الحدیث کاذکرہوتاتوذہن کومتبادرہوتاحضرت شیخ الحدیث مولاناعبدالحق صاحب رحمہ اللہ۔نام سے زیادہ اگرلقب پہچان ہواورلقب بھی صفتی ہوتواس سے پتہ لگتاہے کہ متعلقہ میدان یاصفت کے حوالے سے اس کے حامل کاکیامقام ہے یعنی حدیث اورشیخ الحدیث ہی پہچان بن گیاکیاسعادت اورخوش بختی ہے۔ گویاان کایہ وصف غالبہ علمیت پرغالب آچکاتھایعنی اگرآپ نام لیتے مولاناعبدالحق صاحبؒ کایامولانازکریاصاحبؒ کاتوکسی کے لئے پوچھنے کامجال ہواکرتاتھاکہ کون سے مولاناعبدالحق یاکون سے مولانازکریا؟لیکن اگرآپ ہندوستان میں حضرت شیخ الحدیث کاذکرکرتے توہرکسی کے ذہن میں آجاتاکہ مولانازکریاصاحب ؒ مرادہیںاوراگرآپ پاکستان میں حضرت شیخ الحدیث کاذکرکرتے تووہاں بھی یہی معلوم ہوتاکہ مولاناعبدالحق صاحبؒ مرادہیں۔اس کامعنی یہ ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی نام کی شہرت نہیں چاہی تھی بلکہ اپنے آپ کودرس حدیث کے لئے ایسے وقف کرچکے تھے کہ وہ ان کی شناخت اورشہرت بن گئی۔ حدیث مبارکہ اوراس کے اثرات : رسول پاکؐ کافرمان’’نضراللہ امرأسمع مقالتی فوعاہا واداہا لمن لم یسمعہا اوکما سمعہا‘‘ اللہ خوش وخرم رکھے اس شخص کوکہ جس نے میرامقال(فرمان)سنااس کومحفوظ کیااوراس کواداکیا(یعنی پہنچایا)اس کوجس نے یہ نہیں سناتھا(یااس کااداکیا)جیساکہ اسے سناتھا۔ حدیث ہذامیں دوباتیں ہوئیں محفوظ کرنے کے بعدایک اس کاآگے پہنچانااوردوسرااس طرح ہی پہنچاناجیساکہ اس نے محفوظ کیایعنی اس کے الفاظ ومعانی کے حوالے سے اسی شخص نے نہ توقصداً کوئی تحریف _________________________ * دارالعلوم حقانیہ کے قابل فخر فرزند ،عالم،مصنف،محقق عرصہ سے امریکہ کے اسلامی مراکز میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں،ظلمت کدہ مغرب میں قندیل حقانیہ کی روشنی پھیلا رہے ہیں ۔