ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز* روہنگیا مسلمانوں کا قضیہ اصل حقائق کیا ہیں؟ برما میں مسلمانوں کی حالت زار آج کل میڈیا کا اہم موضوع ہے۔جب مفلوک الحال برمی مسلمانوں کی کشتیاں عالمی ساحلوں پر اپنے لئے جائے پناہ ڈھونڈ رہی ہوتی ہیںتو ایسے میں ہر ایک کا دل لرز جاتا ہے۔برما کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ کیا ہے،اس کا منظر نسلی ہے یا مذہبی،اور کیا کچھ کر کے کہ برمی مسلمان اس جبر و تشدد سے بچ سکتے ہیں؟ان سب پہلوؤں کا احاطہ جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب(سابق وائس چانسلرپشاور یونیورسٹی) نے اس مضمون میں کیا ہے۔اس کی خاصیت یہ ہے کہ مضمون نگار، برما کی حکومت کی دعوت پر 2013 میں وہاں کے مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لئے ایک خصوصی دورہ بھی کر چکے ہیں۔جہاں انھوں نے انتہائی قریب سے اس مسئلے کا جائزہ لیا۔جس کا نچوڑ اس مضمون میں دیا گیا ہے۔ (مدیر) ______________________________ میانمار (برما)کے 12 لاکھ آبادی پر مشتمل روہنگیا مسلمانوں کا قضیہ عرصہ دراز سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سامنے آتا رہتا ہے۔ کبھی اس کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور کہیں یہ عدم توجہی کا شکار بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اور بہت سارے مسائل کی طرح اس مسئلے کو بھی سطحی اور جذباتی طریقے سے پیش کیا جاتا ہے اور مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روہنگیا مسلمان میانمار (برما)میں بہت مشکل وقت گزار رہے ہیں اور میانمار کی آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کی حکومتوں نے روہنگیا لوگوں کے مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس پورے قضیے کا پیچیدہ ترین پہلو یہ ہے کہ آغاز جس مسئلے کا خالصتا نسلی بنیادوں پر ہوا اب اس نے مذہبی شکل اختیار کرلی ہے۔ اب یہ معاملہ روہنگیا کمیونٹی کے لئے میانمار کی شہریت کے حق کے حصول سے زیادہ وہاں کی ایک مسلمان اقلیت اور اکثریتی مذہب (بدھ مت)کے پیروکاروں کے درمیان مذہبی تصادم کا رخ اختیار کر گیا ہے۔ اس پہلو کی وجہ سے عالمی تناظر میں بھی یہ قضیہ انسانی حقوق کی _______________________ * چیئرمین سیرت چیئر یونیورسٹی آف پشاور