ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز (PIPS) کے ڈائریکٹر عامر رانا اور شیخ زاید اسلامک سنٹر کے پروفیسررشید احمد بھی شامل تھے۔ فلپائن اور سنگاپور کے مدنی معاشرے کے بعض موثر سربراہان بھی اس وفد کا حصہ تھے۔مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز مواد موتک دیراتو کے دفترکے آس پاس دیواروں پر متعدد پوسٹر چسپاں تھے، جن پر مسلمانوں کے خلاف مقامی زبان میں اشتعال انگیز مواد تحریر تھا۔ ادارے کے ہزاروں نوجوان طالب علم بال ترشوائے نارنجی لباس میں ملبوس مصروف تعلیم تھے۔ ہمیں میانمار کے لوگوں پر بڑا افسوس ہو اکہ اگر نفرت اور باہمی کشمکش کے اس منظر نامے میں ان نوجوانوں کی اس طرح ذہنی تشکیل جاری رہی تو معلوم نہیں اس خوب صورت نسل کا کیا مستقبل بنے گا؟ مونگ ویراتو نے شکایت کی کہ مسلمانوں کے ایک عالم شعیب دین نے 1938 میں ایک کتاب میں لکھا کہ 21 ویں صدی میں میانمار میں مسلمان غالب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان آبادی بڑھا رہے ہیں اور ہمیں خطرہ ہے کہ وہ میانمار پر قابض ہوجائیں گے۔ اراکان کے تین شہر بوتی ٹانگ، میڈا، اور پیتیڈ رنگ میں روہنگیا98 فی صد ہیں اور ہمیں خطرہ ہے کہ وہ ان شہروں پر قبضہ کرکے اپنی اسلامی ریاست قائم کریں گے۔مسلمان وفد کی وضاحت ہمارے وفد نے انہیں بتایا کہ کسی کی خواہش کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کا عملی طورپر وقوع بھی یقینی ہو۔ میانمار بدھ اکثریت کا ملک ہے اور آپ کو اعتماد ہونا چاہئے کہ مفروضوں کی بنیاد پر ردِعمل کے نتائج معکوس اور نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ہم نے انہیں بتایا کہ مسلمان مذہبی معاملات میں ہجری تقویم استعمال کرتے ہیں، اس لئے یہ ناممکن ہے کہ انہوں نے 21 ویں عیسوی صدی کے حوالے سے میانمار کے قبضے کی کوئی خفیہ منصوبہ بندی کی ہو۔ عملی حقائق بھی اس کے برعکس ہیں کیوں کہ اب تک مسلمانوں کی آبادی میں کوئی بڑا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ 786 کا ہندسہ ابتدائی ادوار میں مسلمانوں نے اس لئے استعمال کرنا شروع کیا تھا تاکہ کھانے پینے کے اشیا کے حلال و حرام کی نشان دہی ہو۔ مونگ ویراتو کے ساتھ تفصیلی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ مسلسل اور بامقصد مکالمے کے ذریعے ان کے ردعمل کو کم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کیلئے مذہبی اور معاشرتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے افراد کی ضرورت ہے۔ اکتوبر 2013 میں دورہ میانمار کے دوران ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صالح کے نام سے ایک روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش سے اسلامی امارت اراکان کے خود ساختہ سربراہ کے طورپر کام کرتا ہے۔ علاوہ ازیں بدھ مت کے ایک فاضل عالم جو آکسفورڈ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکے تھے نے یہ بھی بتایا