ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
حدیث وتفسیر اور فن حقائق و اسرار کی کتابیں اکثر زیر درس بھی رہتیں۔ دعوت و بیان کا انداز حکیمانہ، تصنیف و تالیف کی شان فلسفیانہ ہونے کے باوجود شعر و سخن میں بھی اعلیٰ ذوق اور ثقہ انداز رکھتے تھے۔ ان کی مثنویاں، قصائد اور فصیح و بلیغ نظمیں ، اعلیٰ ترین ذوق سخن کی غمازی کرتی ہیں۔ الغرض وہ اپنے جامع الصفات اکابر و اسلاف کے کمالات و محاسن، نجابت و سعادت ،شرافت و دجاہت، فضل وکمال، اخلاق و شرافت، وقار و تمکنت، فکر و اصابت، تواضع و متانت کا ایک پیکر جمیل اور دیو بند کی اعلیٰ روایات کا ایک مرقع اور ظاہری لطافت و نظافت اور حسن و پاکیزگی کا ایک مجسمہ تھے۔ ان کا ماتم ان سب صفات کا ماتم ہے، پوری قوم اور پوری ملت کا ماتم ہے، دنیا ئے علم و فضل کا ماتم ہے۔درسگاہوں ، جامعات اور خانقاہوں کا ماتم ہے۔ اور دارالعلوم حقانیہ کے لیے بھی اس لحاظ سے ایک عظیم ماتم کہ دارالعلوم اور اس کے بانی مدظلہٗ کے ساتھ حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے علائق و روابط اور خصوصی عنایات وتوجہات کی داستان تقریباً نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ ع کبھی فرصت میں سُن لینا بڑی ہے داستان میری الوداع اے فخر و دین وملت، الوداع اے خادم حصنِ اسلام، الوداع اے شارح علوم قاسمیہ، االوداع اے امین گلشن علوم نبویہ، الوداع اے میر کا رواں، الوداع تیری تُربت پر ہزاروں رحمتیں ہوں اور تو رب کریم کی بے پناہ لطف و کرم سے مالا مال ہو۔ ؎ نذر اشک بے قرار ازمن پذیر گریۂ بے اختیار ازمن پذیر یرد اللّٰہ مضجعک و نورضریحک و انزل علیک شآبیب رحمتکشیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب کاحضرت افغانی ؒکے جنازہ پر خطاب حضرت علامہ شمس الحق افغانی ایک جامع العلوم ہستی ۱۶؍اگست ۱۹۸۳ء :کو حضرت علامہ شمس الحق افغانی رحمہ اللہ کا وصال ہوا نماز جنازہ اسی دن شام ۶ بجے ان کے آبائی گاؤں ترنگزئی میں حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق مدظلہ نے پڑھائی اورنماز کے بعد جنازہ کے شرکاء سے مختصراً حسب ذیل خطاب بھی ارشاد فرمایا: نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم موت العالم موت العالم حضرت مولانامرحوم کی جدائی ہم سب کیلئے صوبہ سرحد اورپاکستان کیلئے بلکہ تمام ممالک اسلامیہ کیلئے ایک