ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
رخصت ہوئے تو دیو بند کا وہ سرچشمہ علم علوم نبوت کا ایک بحر ذکار بن کر علم و دانش کی پوری دنیا سے اپنی برتری اور فضیلت کا لو ہا منوا چکا تھا۔ آپ حضرت بانی دارالعلوم مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے پوتے مولانا محمد احمد مہتمم خاص کے صاحبزادے تھے۔ حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کے خصوصی تلمیذ حضرت شیخ الہندؒ سے بیعت اور حضرت حکیم الامۃ مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ مجاز تھے، پورے طبقہ کے محبوب و منظور نظر اور مرکز علمی کی سیادت کے لحاظ سے پوری جماعت کے سید الطائفہ تھے۔ علمی فیض کے علاوہ بیعت و ارشاد کے میدان میں بھی لاکھوں مسترشدین کے روحانی رہبر و راہنما تھے۔ ۱۳۳۷ھ میں درس نظامی سے فراغت پائی اور دارالعلوم دیو بند میں درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کیا۔ ۱۳۴۳ھ سے ۱۳۴۸ھ تک دارالعلوم کے نائب مہتمم رہے۔ ۱۳۴۸ھ سے لیکر وفات سے کچھ عرصہ قبل تک اس مرکز علم و ہدایت کی سیادت آپ کو حاصل رہی۔ نیرنگیٔ زمانہ یا چرخ نیلگوں کی ستم ظریفی کہیئے کہ زندگی بھر علم وحکمت کے جس ’’تاج محل‘‘(دارالعلوم دیو بند) کی آرائش و تزئین میں مصروف رہے۔ جب وہ بناء عظیم جشن صد سالہ کی شکل میں عظمت و ترقی کے اوج کمال کو چھونے لگی تو اس عمارت کا یہ ’’شاہجہان‘‘جدائی اور مہجوری کے داغ لیے ہوئے اس دنیائے رنگ و بو سے الگ ہو گیا، جو کچھ پیش آیا گو اس کے محرکات ان کے عہد اہتمام کی طرح دیرینہ اور قدیم تھے۔ اور مشیتِ ایزدی کے سامنے کس کی چلتی ہے مگر پھر بھی بے اختیار جی میں آتا ہے کہ کاش یہ صورتحال دو ایک سال مزید پیش نہ آتی اور دارالعلوم دیو بند کا یہ جرنیل ان ہی عظمتوں اور رفعتوں کے ساتھ اور انہی قدر شناسیوں کے ساتھ ہم سے رخصت ہوا ہوتا جوزندگی بھر ہم سب نے انہی کیلئے مخصوص کر رکھی تھیں اور جس کے وہ سزوار تھے کہ سالارِ کاروان کی شوکت و سطوت پوری جماعت اور قافلہ کی شان بڑھاتی ہے ولکن ماشاء اللّٰہ کان وما لم یشاء لم یکن۔ حکیم الاسلامؒ نسبی اور روحانی رشتوں کے ساتھ ساتھ علم و حکمت کے لحاظ سے اپنی ذات سے بھی ایک انجمن تھے، ان کے علوم و تصانیف اور خطبات ، حکمت ولی اللہی اور معرفت نانوتویؒ کے اُبلتے ہوئے سرچشمے ہوتے تھے۔ اسرار دین کی تشریح اور موزِ شریعت کی ترجمانی میں ان کا شمار گنے چنے حکماء اسلام میں ہو سکتا ہے۔ ان کی ہر تقریر حقائق و معارف کا ایک سمندر اور ہر تحریر اسرار و نکات کی ایک دنیا اپنے اندر لیے ہوئے تھی۔ ان کے خطبات سے نہ صرف برصغیر کا گوشہ گوشہ بلکہ عالم اسلام کے علاوہ افریقہ اور یورپ کی دور دراز بستیاں بھی مستفید ہوئیں۔ دین اور مادر علمی دیو بند کی آواز پہنچانے میں زندگی کا اکثر حصہ طویل اسفار کی نذر ہوا۔ اسلام کے اہم اور عصر حاضر کے جدید مسائل پر ایک سو سے زائد تصانیف چھوڑیں۔