ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
چار سا ل ہے اور اس زمانہ میں ہر فن میں تقریباً کوئی ایسی کتاب نہ ہو گی جو میں نے نہ پڑھائی ہو۔ دیگر اساتذہ کی شفقت و محبت کے باوجود چونکہ اختیارات مہتمم صاحب کے ہوتے ہیں تو حضرت مہتمم صاحبؒ ہر معاملہ میں ترجیحی سلوک میرے ساتھ فرمایا کرتے تھے۔ اسباق اور تدریس کا مسئلہ بھی یوں تھا کہ جب بعض اساتذہ حج کو تشریف لے جاتے یا کسی اور عذرسے وہ اسباق نہ پڑھا سکتے تو ان کے اسباق اور کتابیں (جو زیادہ تر فقہ، حدیث، فلسفہ، منطق، معانی اور تفسیر کی ہوتی تھیں) کی تدریس کی ذمہ داری بھی مجھے سونپ دی جاتی اور فرماتے کہ یہ نوجوان ہے اور کام اچھا چلا سکتا ہے اور یہ محض ان کا حسن ظن تھا۔ تو حضرت مہتمم صاحب مرحوم نے بحیثیت مہتمم دارالعلوم دیو بند مجھ ناچیز پر جو شفقت فرمائی ہے اور خاص کر دارالعلوم حقانیہ سے اور ایک موقعہ پر فرمایا کہ ’’دارالعلوم حقانیہ دارالعلوم دیو بند کا بیٹا ہے‘‘۔ حضرت قاری صاحب مرحوم دارالعلوم حقانیہ کو بہت ترجیح دیتے تھے اور اس کے ذکر پر فخر فرمایا کرتے تھے اور یہ خدا تعالیٰ کا اپنا فضل و کرم ہے کہ تمام اکابر اساتذہ، دارالعلوم دیوبند کو دارالعلوم حقانیہ سے ایک خاص محبت تھی، اور سب فرماتے کہ ’’یہ ہمارا اپنا دارالعلوم ہے‘‘۔ حضرت قاری صاحب مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ دارالعلوم دیو بند کو ترقی اور عروج کے بلند معیار پر پہنچا دینا ہے کہ آج تمام دنیا کے لیے دیو بند مشعل راہ ہے ۔ تکثیر علماء ، تکثیر طلباء، تدوین کتب اور تعمیرات ہر لحاظ سے دارالعلوم دیو بند ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔جس کی خدمات اور شہرہ کا لشمس فی نصف النھار ہے۔ آج ہم اُن کے سایہ شفقت سے محروم ہو گئے ہیں یہ تمام اہل علم کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے۔ دارالعلوم دیو بند تمام اہل علم کی مادر علمی ہے۔ اس لیے دارالعلوم حقانیہ کے لیے یہ ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔ میں کیا عرض کروں؟ حضرت قاری صاحب کی وفات سے ہمارے قلوب کو صدمہ پہنچا۔ ہم ایک بڑے مشفق، ایک بڑے مہربان، ایک بڑے تجربہ کار ، بڑے عالم اور خاص کردارالعلوم دیو بند اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے علوم کے حامل سے محروم ہو گئے۔ قیامت کی علامات سے من جملہ ایک علامت یہ بھی ہے کہ یرفع العلم ، جیسا کہ امام بخاریؒ نے اس جانب اشارہ فرمایا ہے کہ جب علم ناپید ہو جائے اور لوگ علوم دینیہ سے محروم ہو جائیں تو دین ختم ہو جائے گا۔ دین ہم کو علم ہی بتلاتا ہے۔ ہم جو یہاں جمع ہوئے ہیں ہمارا مقصد علم حاصل کرنا ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور اللہ تعالیٰ کے دین کے احکام و مسائل سیکھ لیں، جب مسائل معلوم ہو جائیں تو اولا ان پر خود عمل کریں، پھر ان کی حفاظت و اشاعت کی کوشش کریں۔ اسی تبلیغ و اشاعت کے نتیجہ میں انشاء اللہ عالم آباد رہے گا اور اگر یہ کام چھوڑ دیا جائے تو عالم برباد ہو جائے گا … کچھ ایسے بھی اُٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے