3: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی مبارک وصال کے بعدخلیفہ اولحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہی۔ انکے وصال کے بعدخلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہی۔ انکے وصال کے بعد خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس چھ سال تک رہی۔ پھر ایک دن بئراریس(یہ ایک کنویں کا نام ہے) پہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت معیقیب رضی اللہ عنہ تشریف فرماتھے۔ آپ دونوں میں سے کوئی ایک انگوٹھی مبارک دوسرے کو پکڑا رہا تھا کہ انگوٹھی کنویں میں گر گئی۔ پھر باوجود بہت زیادہ تلاش کے نہ مل سکی۔کہتے ہیں کہ اس انگوٹھی مبارک کے گم ہونے کے ساتھ خیر وبرکات میں بہت فرق آگیا اور اس امت میں نہ ختم ہونے والے فتنوں کا آغاز ہوگیا حتیٰ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہخود بھی شہید ہوگئے۔
4: مردوں کے لیے سونے کی انگوٹھی تو مطلقاً حرام ہے، البتہ چاندی کی انگوٹھی اس شرط کے ساتھ جائز ہےکہ وہ چارماشہ سے زائدنہ ہو، البتہ نگینہ کی اجازت ہے کہ وہ کسی بھی دھات یا پتھر کا ہو اگرچہ کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو۔ اس میں بھی قاضی ،مفتی وغیرہ کے لیے جن کو مہر وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہےان کے لیے سنت ہے، البتہ زینت کی نیت سے پہننا مناسب نہیں اور غیر اولیٰ ہے۔ عورت کے لیے سونے اور چاندی کی انگوٹھی تو جائز ہے، اس کے علاوہ پیتل، لوہا وغیرہ کسی دوسری دھات کی جائز نہیں جبکہ انگوٹھی کے علاوہ کے زیور کسی بھی دھات کے عورت کے لیے جائز ہیں۔
5: انگوٹھی دونوں ہاتھوں میں پہننا جائز ہے، کسی ایک ہاتھ کی تخصیص نہیں کیونکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ کی چھنگلی اور کبھی بائیں ہاتھ کی چھنگلی (چھوٹی انگلی) میں پہنتےتھے۔
6: ہر ایسی انگوٹھی جس پر اللہ جلّ جلالُہ یا کوئی اور متبرک نام یا لفظ درج ہو تو