بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب : حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ کے بیان میں
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، عَنْ صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ صَامَ ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ أَفْطَرَ . قَالَتْ : وَمَا صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا كَامِلاً مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ إِلَّا رَمَضَانَ.
ترجمہ: حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اتنے روزے رکھتے تھے کہ ہمارا خیالہوتا کہ اب کبھی روزے نہ چھوڑیں گےاور پھر آپ کبھی اتنے روزے چھوڑ دیتے کہ ہمارا خیال ہوتاکہ آپ روزے کبھی بھی نہ رکھیں گے۔ مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعدآپ نے سوائے رمضان کےکبھی بھی مکمل اور مسلسل ایک مہینے کے روزے نہیں رکھے۔
زبدۃ:
یہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلمکی عادت مبارکہ تھی وگرنہ بعض روایات میں آتا ہےکہ آپ نے شعبان کے مکمل روزے رکھےہیں مگر یہ ہمیشہ معمول نہ تھااور بعض اوقات شعبان کے اکثر روزے رکھتے تھے۔اس وجہ سے بعضنے یہ نقل کر دیا ہے کہ آپ شعبان کے مکمل روزے رکھتے تھے۔
حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارِ نِ الْكُوفِيُّ قَالَ : حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسٰى ، وَطَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ ، عَنْ شَيْبَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنْ غُرَّةِ كُلِّ شَهْرٍ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ وَقَلَّمَا كَانَ يُفْطِرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ.
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر مہینہ کے شروع میں تین دن روزے رکھتے تھےاور جمعہ کا روزہ بہت کم افطار فرماتے تھے۔
زبدۃ: