عورت اور مرد دونوں کے لیے ایسا لباس جو کہ کافروں کا شعار ہو یعنی کفار کی پہچان ہو۔ (۳):مستحب: جس کے پہننے کی ترغیب آئی ہو جیسے عید کے روز عمدہ کپڑا اور جمعہ کے روز سفید کپڑا۔
(۴):مکروہ: جس کے نہ پہننے کی ترغیب آئی ہوجیسے غنی اور مالدار کے لیے ہمیشہ پھٹا پرانا کپڑا پہننااور بلا ضرورت کسی کے لیے بھی میلا کچیلالباس پہننا۔
(۵):مباح: جو نہ ضروری ہو اور نہ اس سے منع کیا گیا ہو جیسے کوئی بھی لباس جو کہ موقع پر میسر ہو۔
2: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سفید رنگ،سبز رنگ،سرخ رنگ،سیاہ بالوں کی چادر، زعفران میں رنگا ہوا ایسا لباس جس پر زعفران کا اثر ختم ہو گیا ہو یعنی منقش چادروں کا مختلف اوقات میں استعمال کرنا ثابت ہے مگر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو قمیص زیادہ پسند تھی جس کی بظاہر وجہ یہ معلوم ہوتی ہےکہ اس میں ستر عورت بھی خوب ہے اور تجمل و زینت بھی۔
3: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول سادہ اورکم قیمت لباس استعمال فرمانے کا تھامگر بسا اوقات نہایت قیمتی لباس بھی استعمال فرمایاہے۔حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سےستائیس یا بتیس اونٹنیوں کے بدلہ میں ایک جوڑا خریدنا بھی ثابت ہے مگر یہ لباس ریشم کا نہیں تھا بلکہ عمدہ کپڑا تھا اور بناوٹ بھی اچھی تھی مگر ایسا بہت کم ہوا ہے۔
(ہامش جمع الوسائل: ج1 ص151)
4: علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کرتہ کی آستین میں سنت یہ ہے کہ پہنچےتک ہو اور چوغے وغیرہ میں سنت یہ ہے کہ پہنچے سے نیچے تک ہومگر انگلیوں سے تجاوز نہ ہو۔