میں سے ایک جزء ہوتا ہے تو اسکی تعبیر جتنی بھی مہتم بالشان ہو ظاہر ہے،اس لیے بغور دیکھا کرو کہ کس سے تعبیر لے رہے ہو وہ اس کا اہل ہے یا نہیں؟
اس مناسبت سے گویا امام ترمذیرحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ذکر کیا لیکن ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہکا کلام اور احادیث کا مضمون خواب کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر علم کو شامل ہے اور جتنا مہتم بالشان علم ہوگا اتنے ہی زیادہ واقف سے معلوم کرنے کی ضرورت ہو گی۔
اس ہمارے زمانہ میں جو قیامت کے بہتہی قریب ہے ایک یہ بھی سخت مضرت کی بات ہوگئی ہے کہ ہر شخص خواہ کتنا ہی جاہل، کتنا ہی بد دین ہو تھوڑی سی صفائی تقریر و تحریر سے علامہ اور مولانا بن جاتا ہے اور رنگین کپڑوں سے صوفی اور مقتدا بن جاتا ہے۔ عام لوگ ابتداءً ایک عام غلط فہمی کی وجہ سے ان کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیںاور پھر اپنی ناواقفیت سے ان کا شکار بن جاتے ہیں۔ وہ غلط فہمی یہ ہے کہ عامۃ قلوب میں یہ سما گیا ہےکہ ”اُنْظُرُوْا اِلٰی مَا قَالَ وَ لَا تَنْظُرُوْا اِلٰی مَنْ قَالَ“ (آدمی کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا کہا، یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کس نے کہا ) حالانکہ یہ مضمون فی نفسہ اگرچہ صحیح ہے لیکن اس شخص کے لیے ہے جو سمجھ رکھتا ہو کہ کیا کہا، جو کہا وہ حق کہا یا باطل اور غلط کہا؟
لیکن جو لوگ اپنی ناواقفیت دینی کی وجہ سے کھرے کھوٹے، صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر سکتے ہوں ان کو ہر شخص کی بات سننا مناسب نہیںکہ اس کا نتیجہ ماٰل کار مضرت اور نقصان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں کوئی دعویدار اگر ولایت، امامت، نبوت رسالت حتیٰ کہ خدائی تک کا بھی نعوذباللہ دعویٰ کرے تو ایک گروہ فوراًاس کا تابع بن جاتا ہے۔والی المشتکیٰ و ھو المستعان“ [حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ختم ہوئی۔]