نرم دل ہیں اور وہ نماز نہ پڑھا سکیں گے، اس لیے کسی اور کو مصلے پر کھڑا فرمادیں۔ اس میں انہوں نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا تھا اور انہوں نے انکی سفارش کردی تھی تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یوسف(علیہ السلام) والیعورتوں کی طرح ہویعنی جس طرح زلیخا بے جا بات پر ضد کر رہی تھی، تم بھی بے جابات پر ضد کرتی ہو، تمہیں چاہیے تھا کہ میری بات فوراً مان لیتیں۔
اور بعض نے فرمایا کہیوسف والی عورتوں سے مراد وہ عورتیں ہیں جنہوں نے زلیخا کو طعنہ دیا تھا کہ تو ایک غلام لڑکے پر عاشق ہو گئی ہے تو زلیخا نے انکی دعوت کی اور یوسف علیہ السلام کو ان کے سامنے آنے کا حکم دیا۔ ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ تو زلیخا کا مقصد ان عورتوں کی دعوت کرنانہ تھا بلکہ مقصد یوسف علیہ السلام کو دکھانا تھا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی یوسف علیہ السلام والی عورتوں کی طرح ہو کہ تم ظاہراً روکتی ہو کہ ابوبکر نرم دل ہیں اور ان کی جگہ پر کسی اور کو مصلے پر کھڑا کردوں مگر تمہارا مقصد کچھ اور ہے۔ چنانچہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ میں بار بار اصرار کر رہی تھی کہ میرے باپ کو مصلے پر کھڑا نہ کریں کیونکہ وہ نرم دل آدمی ہیں، رونے لگ جائیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ اسکی وجہ یہ تھیکہ میں خیال کرتی تھی کہ لوگ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعداس شخص کو کبھی پسند نہ کریں گے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی جگہ پر کھڑا ہو۔ لوگ ایسے شخص کو منحوس سمجھیں گے۔
اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اگرچہ ظاہر میں توحضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا کی موافقت کر رہی تھیں مگر شاید دل میں یہ ہو کہ میرے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت ادا