پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں کو حکم دیا کہ و ہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کریں۔مہاجرین آپس میں خلیفہ کے بارے میں مشورہ کر رہے تھے تو انہوں نے (مہاجرین نے) کہا کہ اپنے انصاری بھائیوںکے پاس چلیں اور انہیں بھی اس معاملہ میں اپنے ساتھ شریک کریں۔ چنانچہ جب مشورہ ہوا تو انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہونا چاہیےاور ایک امیر تم میں سے ہوناچاہیے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسکے جواب میں ارشاد فرمایا: وہ کون شخص ہے کہ جس میں یہ تین فضیلتیں جمع ہیں:
(۱): جس کو قرآن نے ”ثانی اثنین“ کہا یعنی وہ غارمیں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا تنہائی کا ساتھی ہے۔
(۲): جسکو اللہ تعالیٰ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی اور رفیق فرمایاہے۔
(۳): جسکو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غم نہ کرو،اللہ ہمارے ساتھ ہے یعنی اسکو اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہے۔
اے لوگو بتاؤ! وہ دونوں کون تھے جن دونوں کے بارے میں یہ آیتیں اتریں؟ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ بڑھایا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، پھردوسرے تمام لوگوں نے بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اپنی رضا مندی اور رغبت کے ساتھ بیعت کرلی۔
زبدۃ:
اس حدیث میں اہم بات یہ ہے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم تو حضرت یوسف علیہ السلام والی عورتوں کی طرح ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا تھا کہ میرے والد