تو فرمایا:بلالکو کہو کہ اذان دیں اور ابوبکرکو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ نیز آپ صلی اللہعلیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاکہ تم تو حضرت یوسف علیہ السلام کی عورتوں کی طرح ہو۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پھر آپ نے جبکچھ ہلکا پن محسوس کیا تو فرمایا: دیکھومجھے سہارا دے کر کوئی مسجد تک لے جانے والا ہے؟چنانچہ حضرت بریرہباندیاور ایک دوسرا شخص آیا اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے کندھوں کا سہارا لیا اور مسجد تک تشریف لے گئے۔ پھر جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہنے آپ کو آتے دیکھا تو پیچھے ہٹنے کا ارادہ فرمایا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر ثابت قدمرہو یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےنماز مکمل فرمائی اور اسی روز حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ جس شخص نے یہ کہا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلمکی وفات ہوگئی ہے میں اپنی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگ اُمّی تھے، اس سے پہلے ان میں کوئی نبی نہیں آیا تھا، لہٰذا حضرت عمر رضیاللہ عنہ کی بات پرسب خاموش ہوگئے۔ پھر بعض لوگوں نے کہا کہ اے سالم! جاؤ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لے آؤ۔حضرت سالم فرماتے ہیں کہ میں روتا ہوا دہشت کے عالم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔ اس وقت آپ مسجد میں تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر پوچھا: کیا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیاہے؟ میں نے کہا کہحضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے یہ کہا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلمکا انتقال ہوگیا ہے میں اپنی تلوار سے اسکی گردن اڑا دوں گا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ چلو۔ چنانچہ میں بھی انکے ہمراہ چل