جس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو مدینہ منورہ کی ہر چیز تاریک نظر آنے لگی۔ ہم نے ابھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کرنے کے بعد قبر کی مٹی سے ہاتھ بھی نہ جھاڑے تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں تبدیلی محسوس کی۔
زبدۃ:
دلوں میں تبدیلی محسوس کرنے کا مطلب یہ ہےکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے جو فیض حاصل ہورہا تھا وہ ختم ہوگیا اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی وجہ سےجو روحانی ترقی اور انوار حاصل ہو رہے تھےوہ ختم ہو گئے۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ جو کیفیت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں تھی وہ کہاں باقی رہ سکتی ہے؟!
حدیث : حضرت سالم بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت کے دوران آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر جب کچھ افاقہ ہوا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو کہو کہ اذان کہےاور ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ اس کے بعد حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر کچھ افاقہ ہوا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بلال کو کہو اذان دے اور ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ میرے والد ابوبکر بڑے نرم دل ہیں، وہ جب اس مصلے پر کھڑے ہوں گے تو روپڑیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے، لہٰذا آپ کسی دوسرے آدمی کو نماز پڑھا نے کاحکم دے دیں۔ اس کے بعد آپ پر پھر بے ہوشی طاری ہو گئی۔ جب کچھ افاقہ ہوا