تو آپ کے صحابہ گردنیں نیچی کر لیتے (اور اس طرح خاموشہوجاتے ) کہ گویا انکے سروں پر پرندے ہیں اور جب آپ خاموش ہو تے تو وہ بات کرتے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھی آپ کی موجودگی میں کسی بات پر جھگڑا نہ کرتے تھے۔ جب آپ سے کوئی بات کرتا تو باقی خاموش رہتے جب تک وہ اپنی بات مکمل نہ کرلیتا۔ ہر شخص کی بات ایسے ہوتی جیسے یہ پہلے شخص کی بات ہے (یعنی ایسا نہ ہوتا تھا کہ ابتداء میں بڑی توجہ ہو اور بعد میں لوگ اکتا جائیں ) جب آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہمکسی بات پر ہنستے تو آپ بھی ہنستے، جب وہ کسی بات پر تعجب کرتے تو آپ بھی تعجب فرماتے۔
اجنبی اور مسافر آدمی کی سخت گفتگو اور بدتمیزی کی بات پر بھی صبر فرماتے تھے اور کوئی گرفت نہ فرماتے تھے (کیونکہ مسافر لوگ ہر قسم کے سوالات بلا جھجک کرلیتے تھے) صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے لوگوں کو آپ کی مجلس میں پہنچادیتے (جس سے یہ لوگ ہر قسم کے سوالات کرتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس سے خوب فائدہ پہنچتا) آپ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تاکید فرماتے تھےکہ جب کسی حاجت مند کو دیکھو تو اس کی مدد کیا کرو۔ آپ اپنی تعریف کو گوارا نہ فرماتے تھے، البتہ اگر کوئی شخص بطورِ شکریہ کے آپ کی تعریف کرتا تو آپ خاموشی اختیار فرماتے (کیونکہ احسان کا بدلہ شکر کرنا اس شخص پہ ضروری تھا اور وہ اپنا فرض ادا کررہا ہے) آپ کسی کی بات کو کاٹتے نہ تھے، البتہ اگر وہ شخص حد سے تجاوز کرنے لگتا تو آپ منع فرمادیتے یا پھر اٹھ کر تشریف لےجاتے۔
حدیث : حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی شخص کے کوئی چیز مانگنے پر انکار نہیں فرمایا۔
زبدۃ:
اگر چیز موجود ہوتی تو عطا فرمادیتے ورنہ دوسرے وقت کا فرمادیتےیا پھر اسکے